ممکنہ طور پر دہشت گردوں نے اپنی حکمت ِعملی تبدیل کردی ہے اور اب زیادہ تر سرکاری تنصیبات اور خاص کر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور کریکر حملوں میں پولیس اہلکاروں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ یکم جنوری سے اب تک پولیس اہلکاروں اور تھانوں پر حملو ں کے ایک درجن سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں جن میں 19 پولیس اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔
ان واقعات کا بغور جائزہ لیں تو ایک اور بات سامنے آتی ہے کہ ممکنہ طور پر دہشت گردوں نے اپنی حکمت ِ عملی تبدیل کردی ہے اور اب زیادہ تر سرکاری تنصیبات اور خاص کر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔ پیر کے روز ڈیفنس کے علاقے میں سوئی گیس تنصیبات کے قریب دھماکا اور گزشتہ ہفتے شاہراہ فیصل پر پاکستان ائیرفورس فیصل بیس کے قریب کریکر حملہ بھی اس جانب اشارہ کررہا ہے۔
ٹارگٹ کلنگ یا فائرنگ میں بھی اب تک زیادہ تر پولیس کے تفتیشی افسر وں کو نشانہ بنایارہا ہے۔ ان میں اے ایس آئی سے لیکر ڈی ایس پی رینک تک کے اہلکار شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افسران ایسے بھی تھے جو حالیہ بم دھماکوں کی تحقیقات کررہے تھے۔
وی او اے کے نمائندے کی جانب سے واقعات کی بنیاد پر جمع کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق یکم جنوری سے 10فروری تک پولیس پر 15 حملے ہو چکے ہیں جن میں 19 اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔ دہشت گرد پولیس اہلکاروں کو منظم انداز میں نشانہ بنا رہے ہیں۔
گیارہ فروری کو قائد آباد، سات فروری کو اورنگی ٹاوٴن کے دو علاقوں موچکو اور بلال کالونی، انتیس و تیس جنوری کو سہراب گوٹھ، پچیس جنوری کو کورنگی انڈسٹریل ایریا، سترہ جنوری کو اورنگی ٹاؤن، چار جنوری کو ناظم آباد اور گارڈن ٹاؤن، یکم جنوری کو میٹروول پر بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات پیش آئے۔
دھماکا خیز مواد سے بھری ”ٹینس بال“
سینئر پرنٹنڈ نٹ آف پولیس فیاض خان کا کہنا ہے کہ کراچی میں دہشت گرد چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں منظم ہو کر گیس کی تنصیبات، تھانوں اور پولیس اہلکاروں اور رینجرز پر حملے کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ٹینس بال میں دھماکا خیز مواد بھر کر اپنے ہدف پر پھینکتے اور غائب ہو جاتے ہیں۔ قیوم آباد اور نیپا چورنگی کے قریب گیس کی تنصیبات پر حملے انہی ”ٹینس بالز“ کے ذریعے کئے گئے۔وہ منگل کو کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔
پولیس بھی خوف کا شکار
سندھ پولیس کے ایک تفتیشی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتا یا ”ان دنوں کراچی میں طالبان اور کالعدم تنظیموں کے علاوہ بہت سارے جرائم پیشہ گروہ کام کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب پولیس انہیں گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کرتی ہے تو انہیں قانونی داوٴ پیچ لڑاکر رہا کرا لیا جاتا ہے۔ رہائی کے بعد یہی جرائم پیشہ افراد پولیس سے اپنی گرفتاری کا بدلہ لینے پر اتر آتے ہیں اور یوں قانون کی حفاظت کرنے والا خود قانون کے آگے سوالی بن جاتا ہے۔“
گواہوں کو بھی خوف
گمنامی کے پردے سے باہر نہ آنے کی خواہش رکھنے والے تفتیشی افسر نے وی او اے کو مزید بتایا ”ملزمان کی رہائی کا ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ چشم دید گواہ تک ان کے خلاف گواہی دینے سے ڈرتے ہیں۔ انہیں خوف ہوتا ہے کہ کہیں ابھی بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ نا بنادیا جائے ۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کے رپورٹرولی خان بابر کے خلاف جن افراد نے گواہی دی تھی ان سب کو چن چن کر مار دیا گیا۔“
ان واقعات کا بغور جائزہ لیں تو ایک اور بات سامنے آتی ہے کہ ممکنہ طور پر دہشت گردوں نے اپنی حکمت ِ عملی تبدیل کردی ہے اور اب زیادہ تر سرکاری تنصیبات اور خاص کر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔ پیر کے روز ڈیفنس کے علاقے میں سوئی گیس تنصیبات کے قریب دھماکا اور گزشتہ ہفتے شاہراہ فیصل پر پاکستان ائیرفورس فیصل بیس کے قریب کریکر حملہ بھی اس جانب اشارہ کررہا ہے۔
ٹارگٹ کلنگ یا فائرنگ میں بھی اب تک زیادہ تر پولیس کے تفتیشی افسر وں کو نشانہ بنایارہا ہے۔ ان میں اے ایس آئی سے لیکر ڈی ایس پی رینک تک کے اہلکار شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افسران ایسے بھی تھے جو حالیہ بم دھماکوں کی تحقیقات کررہے تھے۔
وی او اے کے نمائندے کی جانب سے واقعات کی بنیاد پر جمع کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق یکم جنوری سے 10فروری تک پولیس پر 15 حملے ہو چکے ہیں جن میں 19 اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔ دہشت گرد پولیس اہلکاروں کو منظم انداز میں نشانہ بنا رہے ہیں۔
گیارہ فروری کو قائد آباد، سات فروری کو اورنگی ٹاوٴن کے دو علاقوں موچکو اور بلال کالونی، انتیس و تیس جنوری کو سہراب گوٹھ، پچیس جنوری کو کورنگی انڈسٹریل ایریا، سترہ جنوری کو اورنگی ٹاؤن، چار جنوری کو ناظم آباد اور گارڈن ٹاؤن، یکم جنوری کو میٹروول پر بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات پیش آئے۔
دھماکا خیز مواد سے بھری ”ٹینس بال“
سینئر پرنٹنڈ نٹ آف پولیس فیاض خان کا کہنا ہے کہ کراچی میں دہشت گرد چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں منظم ہو کر گیس کی تنصیبات، تھانوں اور پولیس اہلکاروں اور رینجرز پر حملے کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ٹینس بال میں دھماکا خیز مواد بھر کر اپنے ہدف پر پھینکتے اور غائب ہو جاتے ہیں۔ قیوم آباد اور نیپا چورنگی کے قریب گیس کی تنصیبات پر حملے انہی ”ٹینس بالز“ کے ذریعے کئے گئے۔وہ منگل کو کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔
پولیس بھی خوف کا شکار
سندھ پولیس کے ایک تفتیشی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتا یا ”ان دنوں کراچی میں طالبان اور کالعدم تنظیموں کے علاوہ بہت سارے جرائم پیشہ گروہ کام کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب پولیس انہیں گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کرتی ہے تو انہیں قانونی داوٴ پیچ لڑاکر رہا کرا لیا جاتا ہے۔ رہائی کے بعد یہی جرائم پیشہ افراد پولیس سے اپنی گرفتاری کا بدلہ لینے پر اتر آتے ہیں اور یوں قانون کی حفاظت کرنے والا خود قانون کے آگے سوالی بن جاتا ہے۔“
گواہوں کو بھی خوف
گمنامی کے پردے سے باہر نہ آنے کی خواہش رکھنے والے تفتیشی افسر نے وی او اے کو مزید بتایا ”ملزمان کی رہائی کا ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ چشم دید گواہ تک ان کے خلاف گواہی دینے سے ڈرتے ہیں۔ انہیں خوف ہوتا ہے کہ کہیں ابھی بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ نا بنادیا جائے ۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کے رپورٹرولی خان بابر کے خلاف جن افراد نے گواہی دی تھی ان سب کو چن چن کر مار دیا گیا۔“