میں کراچی کا بمبینو سنیما ہوں۔ چند دنوں یا شاید چند آخری ساعتوں کا مہمان!! پھر میں آپ سے دور ہوجاوٴں گا۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے!!! میں آج آپ سے آخری بار مخاطب ہوں۔ دو تین دن ہوئے میرے احساس کی ضامن، میری زندگی کاپتہ دینے والی روشنیاں گل کردی گئیں۔ جب سے اب تک میں تنہائی کا شکار ہوں۔۔ جہاں کبھی رونقیں ہواکرتی تھیں، لوگ واہ واہ کرتے تھے، تالیوں کا شور ہوا کرتا تھا وہاں اندھیروں کے سوا کچھ نہیں۔۔۔ ہال ویران ہے، در دیوار چپ ۔۔ آئینے گم ہیں۔۔۔ ساز وآواز، سر، لے اور تال ۔۔۔ جیسے سب کو قرار آگیا ہو۔۔
ہاں!!! میں 51 برس کا ہوچکا ہوں۔ میرا شمار کراچی کے قدیم سنیماوٴں میں ہوتا ہے۔ 1960ء میں کراچی کے علاقے صدر کے آغا خان سوم روڈ کے کنارے پر صدرایوب خان نے میرا افتتاح کیا تھا۔ افتتاح ہونا تھا کہ مجھے دیکھنے والوں کی لائن لگ گئی۔ پھر یہ لائنیں روز کا معمول بن گئیں۔ انگنت اردو اور انگریزی فلمیں میرے نام سے منسوب ہوئیں۔ انہی فلموں میں سے ایک فلم "آئینہ" بھی تھی جو مسلسل پانچ سال تک چلتی رہی اور آخر میرا ایک ریکارڈ بنا گئی۔
ستر کی دہائی شروع ہوئی تو فلموں کا ایک نیا اور کبھی نہ بھولنے والا سنہری دور اپنے ساتھ لائی۔ گارڈن روڈ سے ایم اے جناح روڈ تک اور شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کئی سنیما ہال بنتے چلے گئے۔ ریولی، پلازہ، اوپیرا، پیراڈائز، ریکس، ریو، پیلس، لیرک، اسٹار وغیرہ وغیرہ ۔ مگر میں ان سب سے منفرد تھا۔ مجھے ستر ایم ایم کا اسکرین رکھنے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ میں ہی وہ واحد سنیما تھا جہاں دو بالکونیاں تھیں۔ میری رونقیں اس دور میں روز بہ روز بڑھ رہی تھیں۔
یہ دور ایسا تھا کہ سب جگہ میری طوطی بولا کرتی تھی۔ میری عمارت کے آس پاس بے شمارتشہیری بورڈ لگا کرتے تھے جو دور سے اس بات کا پتہ دیتے تھے کہ یہاں بمبینو نام کا سنیما واقع ہے۔ لوگ ٹریفک سگنل پر رکتے ہی میری طرف متوجہ ہوجایا کرتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات سگنل گرین ہوجاتا تو بھی لوگ مجھے دیکھنے میں مگن رہتے۔
اپنی عمر کی اکیاون بہاریں دیکھتے دیکھتے میں نے تین مالکوں کی تن من دھن سے خدمت کی۔ پہلے میری ملکیت کئی برس تک حاکم علی زرداری کے پاس رہی۔ جب اردو فلموں کا سنہری دور آیا تو وہ خود یہاں آکر محفلیں جماتے رہے۔ اس دور میں ان کے صاحبزادے آصف علی زرداری نے بھی مجھے عزت بخشی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کئی بار اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہاں قدم رنجا فرمایا۔ مگر حاکم صاحب اپنی دیگر کاروباری و سیاسی مصروفیات کے سبب مجھے زیادہ وقت نہ دے سکے اور مجھے اس وقت کے مشہور پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹر روف شمسی کو فروخت کردیا۔ شمسی صاحب کی ملکیت کوکچھ ہی سال ہوئے تھے کہ ایک اور مشہور تاجر امتیاز ملک نے مجھے اپنے نام کرلیا۔ مگر وہ بھی میرا زیادہ دیر تک ساتھ نہ دے سکے اور اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ ان کے بعد سے اب تک میں ان کے بیٹے شیخ عدیل امتیازکی ملکیت میں ہوں۔
شیخ عدیل امتیاز کو زمانے سے بہت سی شکایات ہیں۔ وہ وقت سے نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلموں کی عدم دستیابی نے سنیما انڈسٹری کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ کاروبار بالکل ختم ہوگیا ہے۔ ان کے دو اور سنیما تھے، نرگس اور لالہ زار مگر وہ بھی انہوں نے بیچ دیئے۔
مالک کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی ان کے بس کی بات نہیں رہی۔ وہ وقت سے ہارگئے ہیں۔ سنیما اب مالی فائدے کا سودا نہیں رہا۔ لوگوں میں بھی اب سنیما ٹکٹ خریدنے سکت نہیں رہی۔ انہوں نے حال ہی میں تزئین و آرائش کا کام کیا تھا مگر اس سے بھی کاروبار پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ بلاخر اب وہ سنیماختم کرکے یہاں شاپنگ مال بنانا چاہتے ہیں۔
پچھلے دو سالوں میں ایم اے جناح روڈ پر واقع تمام سنیما گھروں میں صرف بھارتی فلمیں ہی ریلیز ہوسکیں۔ اس دوران میرے اسکرین پر"دبنگ" اور"گول مال" چلیں۔ گزشتہ سال ملک میں صرف 12 پاکستانی جبکہ 33 بھارتی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ صرف پاکستانی فلمیں دکھا کر سنیما بزنس نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے خیال میں یہی وقت درست ہے سنیما ہال بند کرنے کا۔
امتیاز بھارتی فلموں کی پاکستانی سنیماوٴں میں نمائش کے زبردست حامی ہیں۔ انہوں نے سلمان خان کی سپر ہٹ فلم "وانٹیڈ" دوبارہ نمائش کے لئے پیش کی لیکن فلم کے پہلے شو نے تین سو روپے سے بھی کم کا بزنس کیا۔
ایک دورمیں میری عمارت کے باہر فلم دیکھنے والوں کی لائنیں لگا کرتی تھی، ٹکٹس کم پڑ جایا کرتے تھے اور لوگ بلیک میں ٹکٹس خریدا کرتے تھے۔۔۔ لیکن اب سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ اب یہاں سناٹے بولنے لگے ہیں۔ ۔۔ ایک وحشت ہے جو شایدایک تفریح گاہ کی موت پر تجارتی محل بناکر ختم ہوجائے۔ مگر ۔۔ میں ۔۔ میرا وجود۔۔ بمبینو سنیما ۔۔ ختم ہوجائے گا اورپھر شاید آنے والی نسلیں میرے نام سے بھی واقف نہ ہوں۔