تاجر برادری نے کراچی کے شہر میں بدامنی کے خلاف 3 نومبر کو گورنر اور وزیر اعلی کی سرکاری رہائشگاہوں کے سامنے احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں گزشتہ کئی سالوں سے لسانی، سیاسی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔
تاہم حال ہی میں حکام کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہر میں بھتہ خوروں، اغواء کاروں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف موثر کارروائی شروع کی ہے جس سے ان کے بقول جرائم میں قدرے کمی آئی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس نئی کارروائی کا آغاز کراچی کے تاجروں کے طرف سے شہر میں جرائم میں بے پناہ اضافے پر آئندہ ہفتے احتجاج کے اعلان کے بعد ہوا۔
کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر میاں ابرار احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پولیس کے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں اور جرائم پیشہ عناصر کی کارروائیاں اب ایک معمول بن چکی ہیں۔
’’سیاسی جماعتوں سے منسلک افراد مر رہے ہیں اور عام شہری بھی۔ بھتہ خوری اور لوٹ مار دن دھاڑے جاری ہے۔ ٹریفک کے سگنلز پر لوگوں کو لوٹا جاتا ہے اور ہر روز ایسا کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ تاجر برادری نے کراچی کے امن و امان کی صورت حال پر حکومت کی سرد
مہری کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ 3 نومبر کو گورنر اور وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائشگاہوں کے سامنے احتجاجی دھرنا دیں گے۔
میاں ابرار نے متنبہ کیا کہ جرائم کے خلاف حکومت کی جانب سے موثر کارروائی نہ ہونے کی صورت میں 10 نومبر کو شہر بھر میں ہڑتال کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کراچی میں امن و امان کی صورت حال یہی رہی تو تاجر و کاروباری حضرات پاکستان سے اپنا سرمایہ کسی دوسرے ملک لے جائیں گے۔
صوبے میں حکمران پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور پختون قوم پرست جماعت عوامی
نیشنل پارٹی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کراچی چیمبر کے سابق صدر کا کہنا تھا۔
’’کاروباری افراد میں تاثر پایا جاتا ہے کہ تین سیاسی جماعتوں کے درمیان شہر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے جنگ جاری ہے۔‘‘
تاہم کراچی پولیس کے سربراہ اقبال محمود نے منگل کو جرائم سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی سے جرائم میں کمی آئی ہے جس سے ان کے بقول شہر میں تاجر برادری ان کے اقدامات سے مطمئن دکھائی دیتی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال سے پاکستان کی کمزور معیشت پر مزید منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
تاہم حال ہی میں حکام کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہر میں بھتہ خوروں، اغواء کاروں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف موثر کارروائی شروع کی ہے جس سے ان کے بقول جرائم میں قدرے کمی آئی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس نئی کارروائی کا آغاز کراچی کے تاجروں کے طرف سے شہر میں جرائم میں بے پناہ اضافے پر آئندہ ہفتے احتجاج کے اعلان کے بعد ہوا۔
کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر میاں ابرار احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پولیس کے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں اور جرائم پیشہ عناصر کی کارروائیاں اب ایک معمول بن چکی ہیں۔
’’سیاسی جماعتوں سے منسلک افراد مر رہے ہیں اور عام شہری بھی۔ بھتہ خوری اور لوٹ مار دن دھاڑے جاری ہے۔ ٹریفک کے سگنلز پر لوگوں کو لوٹا جاتا ہے اور ہر روز ایسا کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ تاجر برادری نے کراچی کے امن و امان کی صورت حال پر حکومت کی سرد
مہری کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ 3 نومبر کو گورنر اور وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائشگاہوں کے سامنے احتجاجی دھرنا دیں گے۔
میاں ابرار نے متنبہ کیا کہ جرائم کے خلاف حکومت کی جانب سے موثر کارروائی نہ ہونے کی صورت میں 10 نومبر کو شہر بھر میں ہڑتال کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کراچی میں امن و امان کی صورت حال یہی رہی تو تاجر و کاروباری حضرات پاکستان سے اپنا سرمایہ کسی دوسرے ملک لے جائیں گے۔
صوبے میں حکمران پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور پختون قوم پرست جماعت عوامی
نیشنل پارٹی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کراچی چیمبر کے سابق صدر کا کہنا تھا۔
’’کاروباری افراد میں تاثر پایا جاتا ہے کہ تین سیاسی جماعتوں کے درمیان شہر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے جنگ جاری ہے۔‘‘
تاہم کراچی پولیس کے سربراہ اقبال محمود نے منگل کو جرائم سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی سے جرائم میں کمی آئی ہے جس سے ان کے بقول شہر میں تاجر برادری ان کے اقدامات سے مطمئن دکھائی دیتی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال سے پاکستان کی کمزور معیشت پر مزید منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔