کراچی: پاکستان کے معاشی مرکز کہلانے والے شہر، کراچی کا ایک ایسا گاؤں بھی ہے جہاں کے مکینوں کی زندگی کا دارومدار شہر بھر کی غلاظت، گندگی اور کوڑا کرکٹ پر ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں شہری آبادی سے 35 کلومیٹر فاصلے پر واقع 'نور محمد گاؤں' کی، جہاں کی کل آبادی صبح سے لےکر شام تک کچرے کے ڈھیر سے رزق تلاش کرتی ہے۔
گاؤں کی آبادی کچرے کباڑ کی معاش سے وابستہ ہے،گاوں کے مکین دن بھر کی سخت محنت و جدوجہد کے بعد یومیہ سو روپے سے دو سو تک کمالیتے ہیں، جس سے انہیں دال روٹی میسر آجاتی ہے۔
دنیا بھر کے جدید شہروں میں شمار ہونے والے شہر کراچی کے میدانی علاقے میں اس جیسے چھوٹے چھوٹے کئی گاؤں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی برس قبل جب لوگ صوبے کے اندرونی علاقوں سے روزگار کی خاطر کراچی آئے تو انھیں جب کوئی وسیلہ روزگار نظر نہ آیا تو انھوں نے کچرے کے ڈھیر سے ہی رزق تلاش کرنا شروع کیا۔
جب شہری انتظامیہ کے کچرے سے بھرے ٹرک اور کنٹینر لاکر اس میدانی علاقے میں ڈالے جاتے ہیں تو اس گاؤں کے مکین پہلے اس کچرے میں آگ لگاتے ہیں پھر آگ کے ٹھنڈے ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ اس کےبعد کچرے کے ڈھیر سے اٹھنے والے غلیظ اور سانس روک دینےوالے دھویں کی پرواہ کئے بغیر، اس انبار میں اپنے آپ کو مصروف کر دیتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں گاؤں کے مقیم افراد کا کہنا ہے کہ یہاں کے مکین کئی خطرناک بیماریوں سانس کے مرض اور ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں اس کے باوجود ان کی زندگی اس پیشے کی ہی مرہون منت ہے۔
یہ لوگ کچرے کے ڈھیر کو جلا کر ان میں سے دھاتی چیزیں، مثلاً لوہا اور دوسری اشیا نکال کر جمع کرکے اسے فروخت کرکے پیسہ کماتے ہیں۔ یہاں بنیادی سہولتیں ناپید ہیں، جبکہ کچرے کے بڑے بڑے میدانوں میں مٹی کے اونچے پہاڑ ہیں۔
بجلی نا پانی، اسکول نا اسپتال، صرف دو وقت کی روٹی ملے۔۔ تو یہ ان کے لئے کافی ہے۔
وائس آف امریکہ نے گاؤں کے مکینوں کی روداد کو کیمرے میں فلمبند کیا ہے، جسے ملاحظہ کرنے کے لیے، ویڈیو رپورٹ دیکھئیے:
Your browser doesn’t support HTML5