جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پا نچ رکنی بنچ نے کراچی میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی ۔ سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالفتح ملک نے عدالت عظمیٰ میں کراچی میں تشدد کے حالیہ واقعات سے متعلق رپورٹ پیش کی جس کے مطابق گذشتہ ایک ماہ کے دوران شہر میں 306 افراد کو قتل کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق 117 ’ٹارگٹ کلرز‘ کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جب کہ حالیہ ہفتوں میں مختلف جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کی جانے والی کارروائی اور برآمد کیے جانے والے اسلحہ و بارود کی تفصیلات سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ کراچی میں تشدد کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف پانچ سو مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔
اس مقدمے میں وفاق کی طرف سے بابر اعوان اور سندھ حکومت کی طرف سے عبدالحفیظ پیرزادہ پیش ہوئے۔
مقدمے کی سماعت اب 29 اگست کو کراچی میں ہو گی ۔ عدالت عظمیٰ نے کراچی کے بارے میں پیش کی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اٹارنی جنرل انوار الحق کو ہدایت کی کہ وہ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے معلومات اکٹھی کر کے آئندہ پیشی پر کراچی میں امن وامان کی صورت حال اور تشدد کے واقعات سے متعلق ایک جامع رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ سندھ حکومت کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ شہر میں بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ میں کون سے گروپ ملوث ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ کے معاملات سے متعلق تفصیلات صوبائی حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ لسانی اور سیاسی بنیادوں پر قتل میں ملوث عناصر کی نشاندہی نہیں کی جا رہی ہے جس پر سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر عدالت کو علیحدہ سے بریفنگ دینے کے لیے تیار ہیں۔
سندھ حکومت کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے عدالت کو بتایا کہ ’’کوئی حکومت کراچی کے حالات دنوں میں ٹھیک نہیں کرسکتی‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ کراچی میں قیام امن کے لیے فوج کو بلانے کا فائدہ نہیں ہوگا۔
کراچی سے متعلق عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے اپنے وکیل کے توسط سے اس معاملے میں فریق بننے کی درخواست پیش کی۔ اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ نے بھی ایسی ہی درخواست دینے کا فیصلہ کیا تھا۔