تجزیہ کار منیر ملک، ہما بقائی، سلیم صافی اور حاجی عدیل نے پیر کو’ وائس آف امریکہ‘ کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام ’اِن دِی نیوز‘ میں شرکت کی، جِس کا موضوع ’کراچی میں امن و امان کی بحالی‘ تھا۔ ماہرین نے عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے کراچی کے حالات پر ازخود نوٹس لینےاور سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں ہونے والی سماعت کے تناظر میں موضوع پر اپنا نقطہٴ نظر پیش کیا۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل، منیر ملک کا کہنا تھا کہ آئین کی شق 184(3)کے تحت عدالتِ عظمیٰ کے پاس ’لاتعداد اختیارات ‘ موجود ہیں، ’وہ چاہے تو حقائق معلوم کرنے اور اپنی راہنمائی کے لیے کمیشن بھی تشکیل دے سکتی ہے‘۔
منیر ملک کے بقول، دیکھنا یہ نہیں ہے کہ کتنے لوگ پکڑے گئے ہیں یا کتنے نہیں پکڑے گئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا کراچی کے امن کو تباہ کرنے کی کوئی سازش ہے؟ کیا جرائم پیشہ عناصر کسی پارٹی کی پشت پناہی میں کام کر رہے ہیں؟ عدالت کا حکم نامہ کہ کراچی میں حالیہ خونریزی میں ملوث عناصر کی واضح طور پر نشاندہی کی جائے ’لمبی کڑی میں پہلا قدم ہوگا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر امن و امان بحال کرنے کا معاملہ ہو تو پہلے قدم کے طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کوئی ایسے احکامات دے کہ پولیس یا قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے بلا امتیاز ہو کر کارروائی کریں۔
نامور سیاسی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا تھا کہ کراچی میں فوج کی تعیناتی مسئلے کا حل نہیں۔اُنھوں نے کہا کہ عدالت میں یہ بات ثابت کرنی پڑے گی کہ پشت پناہی ہے یا نہیں، لیکن، اُن کے بقول، ’عوام یا مبصرین میں اِس حوالے سے کوئی ابہام موجود نہیں ہے کہ پشت پناہی ہے‘۔
ہما بقائی کے الفاظ میں: ’سوا ل یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ وہ اقدام لے پائے گا جو حکومت نہیں لے پائی؟ اسٹیبلشمنٹ نہیں لے پائی؟ کراچی میں ریاست کُلی طور پر ناکام ہوگئی ہے اور معاشرے اور ریاست کا جو لنک ہوتا ہے وہ ٹوٹ گیا ہے۔‘
اُن کے بقول،’معاشرے میں ایک اِنفارملٹی ہوتی ہے جہاں زمین کا ٹھیکہ ہو چاہے کاروبار ہو چاہے تھانہ کچہری ہو۔ یہ تمام چیزیں ریاست نہیں کرسکتی۔ یہ وہ چار گروپوں کے سیکشن کنٹرول کر سکتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کسی کے پاس اِس کا فوری حل موجود ہے۔‘
تجزیہ کار سلیم صافی کا کہنا تھا کہ سندھ کی بد قسمتی یہ ہے کہ جو تین بڑی جماعتیں حکمراں ہیں ، وہ، اُن کے بقول، ’ایک دوسرے سے بھی کھیل رہی ہیں اور وہ کراچی اور ملک کے مستقبل کے ساتھ بھی کھیل رہی ہیں‘۔
اُنھوں نے ہما بقائی کی بات سے اتفاق کیا کہ سول سوسائٹی اور ریاست کا جو لنک ہے وہ ٹوٹ گیا ہے۔ اُن کے الفاظ میں: ’اِس لنک کو کون بحال کرے گا؟ یہ کام سیاسی فورسز کرتی ہیں۔ یہاں پر تو معاملہ گرم کیا ہوا ہے خود سیاسی فورسز نے ہے؟‘
سلیم صافی نے کہا کہ اگر سیاسی عزم ہو، اگر سیاسی لیڈرشپ مسئلے کو حل کرنے پر آجائے تو پولیس اور رینجرز کو فری ہینڈ دے دیا جائے۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے منیر ملک سے اتفاق کیا کہ کون کون سا کام ہم سپریم کورٹ سے کروائیں گے اور کیا اُس کے پاس اپنی فوج ہے؟ سپریم کورٹ کی طاقت بھی یہی سول سوسائٹی اور سیاسی فورسز ہوا کرتی ہیں یا جو اُن کی اخلاقی قوت ہوتی ہے۔
اُن کےبقول، ’مسئلہ بھی سیاسی لیڈرشپ کا بنایا ہوا ہے اور حل بھی اُس کو سیاسی لیڈرشپ ہی کرسکتی ہے‘۔
عوامی نیشنل پارٹی کے نائب صدر حاجی عدیل کا کہنا تھا کہ اے این پی خیبر پختونخواہ، سندھ اور وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت ہے اور ملک میں امن کے لیے سرگرم کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔