نجی ٹی وی کی خاتون اینکر سے مبینہ ’بدتمیزی‘، تحقیقات کا حکم

وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے کراچی میں گزشتہ روز نجی چینل کی خاتون اینکر کے واقعے پر سخت نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو واقعے کی مکمل تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے

گزشتہ روز سے کراچی کے ایک مقامی ٹی وی چینل کی خاتون ٹی وی اینکر کی کوریج کے دوران گارڈ کی جانب سے مبینہ تشدد کی ویڈیو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سائٹس پر ’وائرل‘ ہو گئی ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون اینکر چینل مائک ہاتھ میں لئے نادرہ کے دفتر کے باہر لگی لمبی قطاروں میں کھڑے افراد کے مسائل کی کوریج دکھانے کیلئے پہنچی ہیں، جہاں دفتر کے عملے کی جانب سے انھیں پہلے روکا گیا اس کے بعد گارڈ کی جانب سے خاتون کو مبینہ طور پر تھپڑ رسید کیا گیا۔

حالیہ اطلاعات کے مطابق، وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے کراچی میں گزشتہ روز ویڈیو کے ذریعے سامنے آنے والے نجی چینل کی خاتون اینکر کے واقعے پر سخت نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو واقعے کی مکمل تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔

چینل کی پروگرام اینکر صائمہ کنول کا کہنا ہے کہ "چینل کو اس علاقے سے شکایات موصول ہو رہی تھیں کہ یہاں شناختی کارڈ بنوانے کے لیے آنے والے افراد کو مسائل کا سامنا ہے، جس پر چینل کی جانب سے کوریج کی غرض سے ان کی ٹیم وہاں پہنچی اور وہاں موجود افراد سے بات چیت کرنا شروع کی تو وہاں موجود عملے نے چینل کو کوریج سے روکا"۔

خاتون اینکر کا کہنا ہے کہ "ہم وہاں موجود رہے تو پہلے کیمرہ مین کو وہاں کے گارڈز نے پکڑ کر زد و کوب کرنے کی کوشش کی۔ بعدازاں، تلخ کلامی اور اسکے بعد گارڈز کی جانب سے تشدد کیا گیا۔ تھپڑ مارا گیا، جو کیمرے پر ریکارڈ ہو کر سامنے آیا جس میں گارڈ کے اسلحے سے فائرنگ کی آوازیں بھی ریکارڈ ہوئیں"

واقعے کی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس پر خاتون کی جانب سے متعلقہ تھانے میں ایف آر درج کرا دی گئی ہے۔ تاہم، صحافتی حلقوں کی جانب سے اس ویڈیو میں پیش آنے والے واقعے کو خاتون کا غیر صحافتی عمل قرار دیا جا رہا ہے۔

کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "خاتون اینکر کا یہ فعل صحافتی زمرے میں نہیں آتا۔ اُن کا رویہ غیر صحافتی ہے۔ میڈیا ذرائع ابلاغ کے تمام اصول موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا"۔

فاضل جمیلی نے کہا ہے کہ" ایک زمانے میں پرنٹ میڈیا اخبارات میں چھاپہ مار ٹیم کے طور پر ایک گروپ ایکٹو ہوا، جس کا مقصد ایسی خبریں چھاپنا تھا جسکا صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ یہ نظریہ اب الیکٹرانک میڈیا چینلز پر رائج ہو گیا ہے، جہاں صحافتی اصولوں کو پرے رکھ کر ایسے پروگرام نشر کئےجا رہے ہیں جو صحافتی معیار پر پورا نہیں اتر رہے"۔

" رپورٹنگ ٹیم کی جانب سے چھاپہ مار کی طرح ایک جگہ پہنچ کر پروگرام کرلینا کوئی صحافت نہیں اب مائک اور کیمرہ ہاتھ آجانے سے کوئی صحافی نہیں بن جاتا۔ سنسنی خیز عمل دکھانا صحافت میں شامل نہیں" صدر کراچی پریس کلب

۔

ان کا کہنا ہے کہ"ایسے پروگرامز کے خلاف صحافتی تنظیمیں ہر فورم پر ایسے غیر صحافیانہ عمل کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں، مگر ان پر کوئی عمل نہیں ہو رہا"۔

پاکستان کے نجی چینل کی پروگرام کی اینکر پرسن، فریحہ ادریس نے بتایا کہ "بہت ہی افسوسناک اور حیرت ناک واقعہ ہے۔ ہم پوری دنیا کو کیا دکھا رہے ہیں کہ کس طریقے سے ایک خاتون اینکر پر ہاتھ اٹھایا گیا ہے"۔

ان خاتون کی بھی غلطی ہے، اس بات کی تربیت کی ضرورت ہے کہ اسٹاف کو سکھایا جائے کہ آپ باہر کے ماحول میں دوران کوریج یا جہاں لوگوں کا ہجوم ہو آپ کا رویہ کیسا ہونا چاہئے " اینکر پرسن فریحہ ادریس

۔

فریحہ ادریس کے مطابق "اگر کوئی مرد ان کو وہاں موجود ہونے سے روک رہا ہے تو ان کو چاہئے تھا کہ وہاں سے ہٹ جائیں"۔

بقول فریحہ "پروگرام اور چینل انتظامیہ ذمہ دار ہوتے ہیں کہ دوران کوریج تمام حالات سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ آپ کو کس ماحول میں کیسے ری-ایکٹ کرنا چاہئے۔ ماحول اور کلچر کیا ہے یہ چیزیں پہلی ترجیح ہونی چاہئے"۔

دونوں فریقین کی ایک دوسرے کے خلاف آیف آئی آر درج

لیاقت آباد کے علاقے میں پیش آنے والے اس واقعے کیخلاف خاتون اینکر صائمہ کنول کی جانب سے نادرہ آفس کے گارڈ کے خلاف تشدد کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جبکہ دوسری جانب گارڈ اور نادرہ کے عملے نے خاتون اینکر کے خلاف ان کے کام میں مداخلت کے خلاف شکایت جمع کرا دی ہیں۔