ان دنوں اگر کراچی کے بلوچ اکثریتی علاقوں بالخصوص ملیر کا رخ کیا جائے تو ہر طرف فٹ بال کی دنیا کے اس سب سے بڑے مقابلے کی بہار یں نظر آئیں گی جہاں اہلِ محلہ نے بینرز کے ساتھ اس ایونٹ میں شرکت کرنے والے مختلف ممالک جیسے کہ فرانس ، اٹلی، برازیل ،انگلینڈ ، ارجنٹائن حتیٰ کہ امریکہ کے بھی پرچم اپنے گھرکی چھتوں اور مختلف عمارتوں پر لگارکھے ہیں۔ اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کی تصاویر کے ساتھ آپ کو گھروں کے باہر دیواروں پر چسپاں ورلڈ کپ کے مقابلوں کا شیڈول بھی ملے گا اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو دیکھتے ہی گلی محلوں میں بچوں کا اکھٹے ہو کر اپنی پسندیدہ ٹیم اور کھلاڑیوں کے لیے نعرے بھی یہاں کی رونقوں کو بڑھارہے ہیں۔
اکبر علی بلوچ فٹ بال کے سابق کھلاڑی رہ چکے ہیں اور اس وقت شہر میں فٹ بال کے پرانے کلبوں میں سے ایک گل بلوچ فٹ بال کلب کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ورلڈ کپ کی آمد سے کئی روز پہلے ہی یہاں کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔” آپ کراچی کے کسی بھی بلوچ علاقے میں جائیں آپ کو یہی جنون ملے گا۔ نہ ہم کرکٹ کھیلتے ہیں اور نہ ہاکی۔ بس اس کھیل سے بلوچوں کا ایک قدرتی لگاوٴ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں لوگوں کی اکثریت برازیل کی حامی ہے کیوں کہ اس ٹیم کا کھیل بہت خوبصورت ہے اور آخر وقت تک آپ کو امید رہتی ہے کہ یہ گول کر دیں گے۔ “
ایک وقت تھا کہ لیاری کوکراچی میں فٹ بال کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا مگر وہاں جاری تشدد اور گینگ وار کی صورتحال نے اس کھیل کی رونقوں کو کم کردیا ہے اور اب کی بار ورلڈ کپ کے دوران وہاں سے فٹ بال کے جوش و خروش کی خبریں سننے کو نہیں مل رہیں۔
ورلڈ کپ کے میچز دیکھنے کے لیے گل بلوچ کلب نے اہل محلہ کے لیے یہاں قائم فٹ بال گراوٴنڈ میں ایک بڑے پروجیکٹر کا بھی اہتمام کر رکھا ہے جہاں تقریباً دو سے ڈھائی ہزار افراد ان مقابلوں کو دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں فٹ با ل کا کھیل تقریباً ہر طبقے میں مقبول ہے مگر حکومت کی سرپرستی چند کھیلوں تک محدود ہے جس میں فٹ بال شامل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں فٹ بال کا ٹیلنٹ بے تحاشہ ہے ۔بہت سے نوجوان پاکستان کو فٹ بال کی دنیا میں ایک نام دینا چاہتے ہیں لیکن حکومت کی عدم توجہی، سہولیات نہ ہونے اور روزگار جیسے مسائل کے باعث یہاں ٹیلنٹ” بن کھلے ہی مرجھا“جاتا ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں ایران میں انڈر فورٹین فٹ بال ایونٹ میں پاکستان کی ٹیم بھارت، ترکی، بنگلہ دیش اور ٹورنامنٹ میں شامل دیگر ممالک کو شکست دے کر دوسرے نمبر پر آئی اور صرف فائنل میں ایران سے اسے شکست ہوئی۔ اکبر علی بلوچ کہتے ہیں کہ صرف ملیر ڈسٹرکٹ میں فٹ بال کے اڑھائی سو سے زیادہ کلب ہیں اور ہم اس کھیل کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت مقابلوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں ۔”اپنے دوستوں یا جاننے والوں سے ہمارے کلب کو جوتھوڑی بہت امدادی رقم ملتی ہے اس سے ہم کھیل کے لیے ضروری سامان کھلاڑیوں کو فراہم کرتے ہیں۔“
ان کے بقول حکومت فٹ بال کے کھلاڑیوں کو کسی محکمے سے منسلک کرے تاکہ ان کے روزگار کا مسئلہ حل ہو اگر ایسا ہوتا ہے تو بہت جلد پاکستان کی ٹیم اوپر آئے گی۔
35 سال اس کھیل سے وابستہ رہنے والے اکبر علی بلوچ کہتے ہیں کہ اگر حکومت اس کھیل کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے ، غیر ملکی کوچز کے ذریعے یہاں نوجوانوں کو تربیت دے اور باقاعدگی سے ٹورنامنٹ نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی کھلاڑیوں کو بھیجے تو یہاں نوجوانوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ دس 12سال میں ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر جائیں گے۔