عدالت عظمیٰ شہر میں زمینوں پر قبضہ اور تجاوزات کو بدامنی کا اصل سبب قرار دینے کے علاوہ یہ بھی کہہ چکی ہے کہ شر پسند عناصر کو مختلف سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
اسلام آباد —
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے عدالتی احکامات کے مطابق عملد رآمد پر صوبائی حکومت کی پیش کردہ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔
جمعرات کو کراچی رجسٹری میں اس کیس میں عدالتی کارروائی کرنے والے بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ وہ عدالت کو تحریری طور پر یہ بتا دیں کہ وہ بدامنی میں سیاسی جماعتوں کے ملوث ہونے کے معاملے پر بے بس ہیں۔
دو سال قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی میں امن وامان کی خراب صورتحال پر از خود نوٹس لیا تھا جس کی مختلف سماعتوں کے بعد شہر میں امن بحال کرنے کے لیے مختلف اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ شہر میں زمینوں پر قبضہ اور تجاوزات کو بدامنی کا اصل سبب قرار دینے کے علاوہ یہ بھی کہہ چکی ہے کہ شر پسند عناصر کو مختلف سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
سندھ حکومت کا موقف ہے کہ اس نے کراچی میں امن وامن کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں صوبے کے دیگر علاقوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی اضافی نفری کو بھی شہر میں تعینات کیا گیا ہے۔
اس بارے میں حکمران پیپلز پارٹی کی رکن اور سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتی ہیں۔
’’ میں سمجھتی ہوں کہ اب کراچی میں طالبان ہیں اور گوریلا ایکشن کا وقت آگیا ہے۔ اب ہر چیز بہت خراب ہوگئی ہے اور ہر طاقت ان کی آڑ میں اپنا کام کررہی ہے تو اس وقت ہمارے ملک کے تمام اداروں کو خود کو ایک قوم سمجھنا ہوگا جن کو ان دہشت گردوں سے لڑنا ہے۔‘‘
ساحلی شہر کراچی میں حالیہ مہینوں کے دوران قتل و غارت گری کے علاوہ مختلف پرتشدد واقعات بشمول بم دھماکوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب کہ رواں سال اب تک دو سو سے زائد افراد ان واقعات میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
جمعرات کو کراچی رجسٹری میں اس کیس میں عدالتی کارروائی کرنے والے بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ وہ عدالت کو تحریری طور پر یہ بتا دیں کہ وہ بدامنی میں سیاسی جماعتوں کے ملوث ہونے کے معاملے پر بے بس ہیں۔
دو سال قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی میں امن وامان کی خراب صورتحال پر از خود نوٹس لیا تھا جس کی مختلف سماعتوں کے بعد شہر میں امن بحال کرنے کے لیے مختلف اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ شہر میں زمینوں پر قبضہ اور تجاوزات کو بدامنی کا اصل سبب قرار دینے کے علاوہ یہ بھی کہہ چکی ہے کہ شر پسند عناصر کو مختلف سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
سندھ حکومت کا موقف ہے کہ اس نے کراچی میں امن وامن کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں صوبے کے دیگر علاقوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی اضافی نفری کو بھی شہر میں تعینات کیا گیا ہے۔
اس بارے میں حکمران پیپلز پارٹی کی رکن اور سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتی ہیں۔
’’ میں سمجھتی ہوں کہ اب کراچی میں طالبان ہیں اور گوریلا ایکشن کا وقت آگیا ہے۔ اب ہر چیز بہت خراب ہوگئی ہے اور ہر طاقت ان کی آڑ میں اپنا کام کررہی ہے تو اس وقت ہمارے ملک کے تمام اداروں کو خود کو ایک قوم سمجھنا ہوگا جن کو ان دہشت گردوں سے لڑنا ہے۔‘‘
ساحلی شہر کراچی میں حالیہ مہینوں کے دوران قتل و غارت گری کے علاوہ مختلف پرتشدد واقعات بشمول بم دھماکوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب کہ رواں سال اب تک دو سو سے زائد افراد ان واقعات میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔