چند سال پہلے تک شہر میں صرف ایک ہی سردخانہ ہوا کرتا تھا۔ اس وقت کراچی میں دو سردخانے اور بھی کام کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں، کچھ اسپتالوں میں بھی مردے رکھنے کی سہولت موجود ہے
کراچی میں سردخانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ وہ سرد خانے ہیں جہاں مردوں کو رکھا جاتا ہے۔ عمومی طور پر ایسے مردوں کو جن کی شناخت نہیں ہو پاتی یا جو لاوارث ہوتے ہیں۔
مرنے کے بعد یہ سرد خانے ہی ان کا پہلا ٹھکانہ ہوتے ہیں۔ کراچی میں کئی سال سے جاری بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ سردخانوں کے بڑھنے کی وجوہات ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپوٹ کے مطابق30دن پہلے ختم ہونے والے سال 2012ء کے دوران کراچی میں 3105 افرادہلاک ہوئے۔ ان میں 2048عام لوگ جبکہ 303سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔ قتل ہونے والوں میں 118 بچے اور 114 خواتین بھی شامل ہیں۔ شہر میں 356 سیاسی و مذہبی کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ 843 عام شہری ٹارگٹ کلنگ کی زد میں آئے، جبکہ 104افراد فرقہ وارانہ جھگڑوں میں قتل ہوئے۔
جس شہر میں مرنے والے افراد کی شرح اس حد تک بڑھی ہوئی ہو ظاہر ہے وہاں قبرستانوں کی آبادی اور سردخانوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوگا۔ اب سے چند سال پہلے تک شہر میں صرف ایک ہی سرد خانہ ہوا کرتا تھا جو سہراب گوٹھ کے علاقے میں ہے اور جو عبدالستار ایدھی ٹرسٹ کی زیرنگرانی چل رہا ہے۔ اس وقت کراچی میں دو سرد خانے اور بھی کام کررہے ہیں جو خدمت خلق فاوٴنڈیشن کی زیرسرپرستی کام کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں، کچھ اسپتالوں میں بھی مردے رکھنے کی سہولت موجود ہے۔
کراچی کے کچھ شہری ایسے بھی ہیں جو دن کا ایک بڑا حصہ ’گمنام مردوں‘ اور’لاوارث لاشوں‘ کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ایک عام آدمی جہاں جاتے ہوئے اپنے اوپر رقت سی طاری ہوتی محسوس کرے اور جہاں سفید چادروں میں لپٹے صرف مردے ہی مردے ہوں وہاں کام کرنے والے لوگ شاید نارمل دل و جاں رکھنے کے باوجود عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔
ایدھی ٹرسٹ کراچی سے وابستہ42سالہ ایمبولیس ڈرائیور محمد ساجد کہتے ہیں ’مجھے آج بھی وہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے جب آج سے تقریباٌ سات سال پہلے ایدھی کی ہیلپ لائن پرمجھے ایک کال موصو ل ہوئی کہ کینٹ اسٹیشن کے قریب ریل کی پٹری پر ایک لاش پڑی ہے۔ جب میں وہاں پہنچا اور میں نے لاش دیکھی تو گویا میرے پاوٴں کے نیچے سے زمین ہی سرک گئی۔ لاش کی حالت دیکھ کر مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی۔ آج بھی میں وہ حالت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔‘
محمد ساجد نے وائس آف امریکہ کو خصوصی بات چیت میں بتایا کہ ’سہراب گوٹھ والے سرد خانے میں اوسطاً روزانہ تقریباٌ40 سے 50افراد کی لاشیں لائی جاتی ہیں۔ ان میں ہیرونچی، سڑکوں پر حادثات میں مرجانے والے، خودکشی کرنے والے، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والے اور کچھ طبی موت مرنے والے شامل ہوتے ہیں۔‘
وائس آف امریکہ کے نمائندے کے استفسار پر ساجد نے بتایا کہ سہراب گوٹھ کے سرد خانے میں 250 سے 300 لاشوں کے رکھنے کی گنجائش ہے۔
ساجد کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ پہلے کبھی اس طرح ہوتا ہو کہ ایدھی کے سرد خانے میں لاشوں کے رکھنے کے لئے گنجائش کم پڑ جاتی ہو، لیکن اب تو ایدھی فاؤنڈیشن کے علاوہ خدمت خلق فاؤنڈیشن کے بھی کراچی میں سرد خانے موجود ہیں جس کی وجہ سے لاشیں رکھنے کی گنجائش مجموعی طور پر بڑھ رہی ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن گزشتہ کئی دہائیوں سے لاشوں کو محفوظ رکھنے اور ان کے غسل اور کفن دفن کے انتظامات کرتاآرہا ہے۔
ساجد نے یہ بھی بتایا کہ لاوارث اور ناقابل شناخت لاشوں کو تین روز کی انضباطی کاروائی کےبعد ایدھی کے قبرستان میں امانتاٌ دفنا دیا جاتا ہے ۔یہ قبرستان مواچھ گوٹھ میں واقع ہے۔ ہر دفنائی جانے والی لاش کی تصویر کو ایک نمبر الاٹ کردیا جاتا ہے اور تصویر کو سرد خانے میں موجود تصویری البم میں لگا دیا جاتا ہے تاکہ اگر کسی لاش کے ورثاٴ آئیں تو اپنے پیارے کو با آسانی شناخت کر لیں۔
لاوارث لاشوں کے غسل اور کفن دفن کا سارا انتظام ایدھی فاؤنڈیشن ہی کی طرف سے کیا جاتا ہے جبکہ غریب افراد جو غسل اور کفن دفن کے اخراجات ادا نہیں کر سکتے تو ان کے اخراجات بھی ایدھی فاؤنڈیشن اپنے پاس سے ادا کرتا ہے۔
مواچھ گوٹھ قبرستان میں قبروں کی کل تعداد کے حوالے سے ایدھی کے ایک اور رضا کارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ایدھی فاؤنڈیشن کے روح رواں عبدالستار ایدھی خود اپنے ہاتھوں سے 20000 سے زائد لاوارث اور بے شناخت لاشوں کو غسل دے کر ان کی تدفین کر چکے ہیں۔
مرنے کے بعد یہ سرد خانے ہی ان کا پہلا ٹھکانہ ہوتے ہیں۔ کراچی میں کئی سال سے جاری بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ سردخانوں کے بڑھنے کی وجوہات ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپوٹ کے مطابق30دن پہلے ختم ہونے والے سال 2012ء کے دوران کراچی میں 3105 افرادہلاک ہوئے۔ ان میں 2048عام لوگ جبکہ 303سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔ قتل ہونے والوں میں 118 بچے اور 114 خواتین بھی شامل ہیں۔ شہر میں 356 سیاسی و مذہبی کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ 843 عام شہری ٹارگٹ کلنگ کی زد میں آئے، جبکہ 104افراد فرقہ وارانہ جھگڑوں میں قتل ہوئے۔
جس شہر میں مرنے والے افراد کی شرح اس حد تک بڑھی ہوئی ہو ظاہر ہے وہاں قبرستانوں کی آبادی اور سردخانوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوگا۔ اب سے چند سال پہلے تک شہر میں صرف ایک ہی سرد خانہ ہوا کرتا تھا جو سہراب گوٹھ کے علاقے میں ہے اور جو عبدالستار ایدھی ٹرسٹ کی زیرنگرانی چل رہا ہے۔ اس وقت کراچی میں دو سرد خانے اور بھی کام کررہے ہیں جو خدمت خلق فاوٴنڈیشن کی زیرسرپرستی کام کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں، کچھ اسپتالوں میں بھی مردے رکھنے کی سہولت موجود ہے۔
کراچی کے کچھ شہری ایسے بھی ہیں جو دن کا ایک بڑا حصہ ’گمنام مردوں‘ اور’لاوارث لاشوں‘ کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ایک عام آدمی جہاں جاتے ہوئے اپنے اوپر رقت سی طاری ہوتی محسوس کرے اور جہاں سفید چادروں میں لپٹے صرف مردے ہی مردے ہوں وہاں کام کرنے والے لوگ شاید نارمل دل و جاں رکھنے کے باوجود عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔
ایدھی ٹرسٹ کراچی سے وابستہ42سالہ ایمبولیس ڈرائیور محمد ساجد کہتے ہیں ’مجھے آج بھی وہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے جب آج سے تقریباٌ سات سال پہلے ایدھی کی ہیلپ لائن پرمجھے ایک کال موصو ل ہوئی کہ کینٹ اسٹیشن کے قریب ریل کی پٹری پر ایک لاش پڑی ہے۔ جب میں وہاں پہنچا اور میں نے لاش دیکھی تو گویا میرے پاوٴں کے نیچے سے زمین ہی سرک گئی۔ لاش کی حالت دیکھ کر مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی۔ آج بھی میں وہ حالت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔‘
محمد ساجد نے وائس آف امریکہ کو خصوصی بات چیت میں بتایا کہ ’سہراب گوٹھ والے سرد خانے میں اوسطاً روزانہ تقریباٌ40 سے 50افراد کی لاشیں لائی جاتی ہیں۔ ان میں ہیرونچی، سڑکوں پر حادثات میں مرجانے والے، خودکشی کرنے والے، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والے اور کچھ طبی موت مرنے والے شامل ہوتے ہیں۔‘
وائس آف امریکہ کے نمائندے کے استفسار پر ساجد نے بتایا کہ سہراب گوٹھ کے سرد خانے میں 250 سے 300 لاشوں کے رکھنے کی گنجائش ہے۔
ساجد کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ پہلے کبھی اس طرح ہوتا ہو کہ ایدھی کے سرد خانے میں لاشوں کے رکھنے کے لئے گنجائش کم پڑ جاتی ہو، لیکن اب تو ایدھی فاؤنڈیشن کے علاوہ خدمت خلق فاؤنڈیشن کے بھی کراچی میں سرد خانے موجود ہیں جس کی وجہ سے لاشیں رکھنے کی گنجائش مجموعی طور پر بڑھ رہی ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن گزشتہ کئی دہائیوں سے لاشوں کو محفوظ رکھنے اور ان کے غسل اور کفن دفن کے انتظامات کرتاآرہا ہے۔
ساجد نے یہ بھی بتایا کہ لاوارث اور ناقابل شناخت لاشوں کو تین روز کی انضباطی کاروائی کےبعد ایدھی کے قبرستان میں امانتاٌ دفنا دیا جاتا ہے ۔یہ قبرستان مواچھ گوٹھ میں واقع ہے۔ ہر دفنائی جانے والی لاش کی تصویر کو ایک نمبر الاٹ کردیا جاتا ہے اور تصویر کو سرد خانے میں موجود تصویری البم میں لگا دیا جاتا ہے تاکہ اگر کسی لاش کے ورثاٴ آئیں تو اپنے پیارے کو با آسانی شناخت کر لیں۔
لاوارث لاشوں کے غسل اور کفن دفن کا سارا انتظام ایدھی فاؤنڈیشن ہی کی طرف سے کیا جاتا ہے جبکہ غریب افراد جو غسل اور کفن دفن کے اخراجات ادا نہیں کر سکتے تو ان کے اخراجات بھی ایدھی فاؤنڈیشن اپنے پاس سے ادا کرتا ہے۔
مواچھ گوٹھ قبرستان میں قبروں کی کل تعداد کے حوالے سے ایدھی کے ایک اور رضا کارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ایدھی فاؤنڈیشن کے روح رواں عبدالستار ایدھی خود اپنے ہاتھوں سے 20000 سے زائد لاوارث اور بے شناخت لاشوں کو غسل دے کر ان کی تدفین کر چکے ہیں۔