ملک کے تجارتی مرکز کراچی میں دو روز کے دوران نامعلوم زہریلی گیس کے اخراج سے14 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ لیکن دوسری جانب، حکام اب تک گیس کی لیکیج کی اصل وجوہات کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ادھر اہلکاروں کے مطابق، مریضوں کے مختلف ٹیسٹ اور ہلاک ہونے والے شہریوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹوں سے گیس کا سراغ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
صوبائی حکام کا مؤقف:
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ کراچی میں زہریلی گیس کے اخراج سے دو روز کے دوران 14 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ ریسکیو ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق، اس سے متاثر ہو کر اسپتال پہنچنے والوں کی تعداد 300 سے زیادہ ہوچکی ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ کے مطابق، مختلف ادارے اس بات پر تحقیقات کر رہے ہیں کہ گیس لیکیج کی اصل وجہ کیا ہے، جبکہ گیس لیک سے ہلاک ہونے والوں کے پوسٹ مارٹم رپورٹس سے بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ کون سی گیس ہو سکتی ہے۔تاہم، حکام اب تک اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے ہیں کہ اس گیس کے اخراج کی اصل وجہ کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مینجنگ ڈائریکٹر سلمان شاہ نے بتایا کہ گیس لیکیج کی تحقیقات کے لئے سیمپلز اکھٹے کرکے لیبارٹری بھیجے جا چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کیماڑی اور اطراف کے علاقوں سے حاصل کردہ سیمپلز میں نائٹروجن آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ گیسز کی مقدار معمول کی مقدار سے زیادہ پائی گئی ہے۔ اور یہ مقدار متاثرہ علاقوں میں کم یا زیادہ بھی پائی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کی مزید مانیٹرنگ بھی کی جا رہی ہے۔ مریضوں کی پیتھالوجیکل رپورٹس کو بھی دیگر رپورٹس کے ساتھ موازنہ کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ایسی کوئی صورتحال نہیں کہ انتظامیہ نے وہاں رہنے والوں کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بنایا جائے۔
ادھر کمشنر کراچی افتخار شہلوانی نے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پیر کو آگاہ کیا تھا کہ کراچی کی بندرگاہ پر سویابین آئل یا اس سے ملتی جلتی چیز اتاری جا رہی ہے، جس سے یہ بدبو پھل رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ کو آگاہ کیا گیا کہ کینٹینر کے دروازے بند کرنے پر بو کم ہوجاتی ہے، جس پر وزیر اعلیٰ نے کینٹینر چیک کرانے کا حکم دیا ہے۔ تاہم، کراچی پورٹ ٹرسٹ حکام نے ایسے کسی جہاز سے گیس کے اخراج کی تردید کی ہے۔ حکام کے مطابق، پورٹ پر لنگرانداز ہونے والے تمام جہازوں اور اطراف کو چیک کیا جا چکا ہے اور گیس کے اخراج کی کوئی نشانی نہیں ملی۔
مریضوں میں گھبراہٹ اور گلے میں خراش اور آنکھوں میں تکلیف کی شکایات ہیں: ڈاکٹر
ادھر گیس کی لیکیج سے متاثر ہونے والے مریضوں میں سے بیشتر کیماڑی میں واقع ڈاکٹر ضیاالدین اسپتال پہنچ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ضیاالدین اسپتال کے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کے انچارج ڈاکٹر محمد عقیل کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والے مریضوں میں گیس کی وجہ سے تناؤ، گھبراہٹ، گلے میں خراش، آنکھوں میں چبھن، بے چینی اور پیٹ میں درد کی علامات پائی گئیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہائیڈروجن سلفائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ یا پھر نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ میں سے کوئی گیس ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سانس لینے کی زیادہ کوشش میں مریضوں میں کیلشئیم کی کمی بھی پائی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر عقیل احمد کا کہنا ہے کہ چونکہ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ کونسی گیس ہے، اسلئے مریضوں کو زیادہ آکسیجن کی فراہمی ممکن بنا کر ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔
ماہرین ماحولیات کیا کہتے ہیں؟
زہریلی گیس کے اخراج کے علاقے میں سروے میں مصروف نجی کمپنی، گلوبل انوائرنمنٹ لیب کے چیف ایگزیکٹو سلیم الزمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ علاقے میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، ہائیڈروجن سلفائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسوں کی مقدار معمول کی مقدار سے زیادہ ضرور پائی گئی ہیں مگر گیس کے اخراج کے ذرائع اور ہلاکتوں کی وجہ کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ تمام گیسز انتہائی نقصان دہ تو ہیں، لیکن فی الحال ان کی مقدار اتنی نہیں کہ ان کی وجہ سے ہلاکتیں ہوں۔ سلیم الزمان کے مطابق، ان کے ادارے نے ڈاکٹر ضیاالدین اسپتال، کلفٹن اور ریلوے گیٹ کے علاقوں میں ہوا کے نمونے ٹیسٹ کئے ہیں۔ تاہم، انہیں بندرگاہ میں جانے کی اجازت نہیں ملی جس کے باعث وہاں سے نمونے بھی حاصل نہیں کئے جا سکے۔
گیس لیکیج سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں کیماڑی اور کراچی کے مختلف جزائر شامل ہیں جہاں گنجان آبادیاں ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے رہائشیوں میں اس وقت بھی خوف اور تشویش پائی جاتی ہے۔