پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقے 249 میں ضمنی انتخاب میں پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع کر دیا گیا۔
یہ نشست پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکنِ قومی اسمبلی فیصل واوڈا کے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد مستعفی ہونے پر خالی ہوئی تھی۔ جمعرات کو حلقے میں انتخابی معرکے کے لیے پولنگ کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوا۔
کراچی کے ضلع غربی کے اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد تین لاکھ 39 ہزار 591 ہے جس میں دو لاکھ ایک ہزار 656 مرد اور ایک لاکھ 37 ہزار 935 خواتین ووٹرز تھے۔
حلقے میں پولنگ کے لیے 276 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے جن پر 2100 سے زائد انتخابی عملہ فرائض انجام دے رہا تھا۔
صوبہ سندھ کے محکمۂ داخلہ نے حلقے کے 276 پولنگ اسٹیشنز میں سے 184 کو انتہائی حساس اور 92 کو حساس قرار دیا تھا۔
SEE ALSO: کراچی کے این اے 249 میں ضمنی الیکشن: کس جماعت کا پلڑا بھاری ہے؟ضمنی انتخاب میں امن و امان کی صورتِ حال برقرار رکھنے کے لیے سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے۔ اس سلسلے میں تین ہزار سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پریذائیڈنگ افسران کو ہدایت کی گئی کہ وہ پولنگ ایجنٹس کے سامنے فارم 45 کی تصویر لیں گے اور انہی کی موجودگی میں ریٹرنگ افسران کو واٹس ایپ پر فارم 45 کی تصویر بھیجیں گے۔
حلقے میں کون کون مدِ مقابل؟
کراچی کا یہ حلقہ بلدیہ ٹاؤن، سعید آباد، رشید آباد، آفریدی کالونی، اتحاد ٹاؤن، مومن آباد، مجاہد کالونی، اسلام نگر، خیبر کالونی، مسلم مجاہد کالونی، گجرات کالونی، گلشن غازی سمیت دیگر علاقوں پر مشتمل ہے جہاں مختلف سیاسی جماعتوں سمیت 30 امیدوار مدِ مقابل تھے۔
ان امیدواروں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسماعیل، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امجد اقبال آفریدی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے حافظ مرسلین، پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کے سید مصطفیٰ کمال، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے قادر خان اور حال میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مفتی نذیر کمالوی شامل ہیں۔
SEE ALSO: خیبر پختونخوا کے سیاسی رہنما کراچی کے ضمنی انتخاب میں سرگرم کیوں؟اس سے قبل 2018 کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے فیصل واوڈا نے 35 ہزار 349 ووٹ لے کر اس حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی جب کہ ان کے مدِ مقابل مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف 34 ہزار 626 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ دونوں امیدواروں میں صرف 723 ووٹ کا فرق تھا۔
سال 2018 کے انتخابات میں حلقے کے دیگر امیدواروں میں کالعدم ٹی ایل پی کے مفتی عابد حسین کو 23 ہزار 981 ووٹ، ایم کیو ایم کے اسلم شاہ کو 13 ہزار 534 ووٹ، متحدہ مجلس عمل کے سید عطا اللہ شاہ کو 10 ہزار 307 ووٹ، پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل کو سات ہزار 236 ووٹ اور پی ایس پی کی ڈاکٹر فوزیہ حمید کو ایک ہزار 617 ووٹ ملے تھے۔