موجودہ ایئرپورٹ تعمیر کے دنوں میں ہوسکتا ہے شہر کے ایک کونے پر ہو۔ لیکن، اب یہ انسانی بستیوں سے پوری طرح گھر گیا ہے، مین راستوں کے علاوہ ذیلی سڑکیں اور بغلی راستے اس کے اندر سے ہوکر گزرتے ہیں
کراچی —
کراچی کو ایک نئے ایئرپورٹ کی ضرورت ہے ۔۔۔ایک ایسے ایئر پورٹ کی جہاں نہ سیکورٹی مسئلہ بنے نا آبادی کے لئے کوئی خطرہ پیدا ہو۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک میں ایک عرصے تک ٹاوٴن پلاننگ اور تعمیرات کے شعبے سے جڑے، حیات علی رضوی کے خیال میں ’موجودہ حالات اور اس کے تقاضے یہی ہیں کہ شہر کی گنجان آباد بستیوں سے دور ایک نیا ایئرپورٹ تعمیر کیا جائے ۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے ، ایئرپورٹس آبادی سے دور بنائے جاتے ہیں۔اس میں کوئی حرج نہیں‘۔
وہ مزید کہتے ہیں: ’موجودہ ایئرپورٹ تعمیر کے دنوں میں ہوسکتا ہے شہر کے ہنگاموں اور گنجان آباد بستیوں سے دور یا شہر کے ایک کونے پر ہو۔ لیکن، اب کراچی کا ’قائد اعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ ’انسانی بستیوں سے پوری طرح گھر گیا ہے۔ مین راستوں کے علاوہ ذیلی سڑکیں اور بغلی راستے اس کے اندر سے ہوکر گزرتے ہیں جو سیکورٹی کے لئے مسلسل خطرہ ہیں۔‘
شہر قائد کا ایک بڑا مسئلہ کچی اور غیر قانونی بستیاں بھی ہیں۔ یہ بستیاں بے ہنگم طریقے سے پرورش پاتی رہی ہیں۔ لہذا، نہ تو یہاں رہنے والوں کا کوئی ڈیٹاحکومتی ریکارڈ میں ہے اور نہ ہی ان پر کسی قسم کی کوئی نگرانی ہوتی رہی ہے۔
اس بات کی سب سے بڑی مثال پہلوان گوٹھ اور بھٹائی گوٹھ ہیں، جن کا شمار کچی بستیوں میں ہوتا تھا۔ مگر، وقت کے ساتھ ساتھ، دوسرے شہروں اور علاقوں سے آنے والے افراد اپنے اپنے طور پر بستے چلے گئے۔علاقہ گنجان ہوا تو لوگوں نے اپنے طور پر راستے اور گلیاں بھی خود ہی بنالیں۔ اس آبادی میں اس وقت زیادہ تر ایسے افراد رہتے ہیں جو ایئرپورٹ یا اس سے متصل دفاتر و تجارتی مراکز میں کام کرتے ہیں۔ پی آئی اے کے ملازمین کی بڑی تعداد بھی یہیں رہتی ہے اور وہ بھی ایئرپورٹ جانے کے لئے یہی راستہ اختیار کرتی ہے۔
پہلوان گوٹھ کے دیرینہ رہائشی اور پی آئی اے کے ایک ملازم، شمیم الدین نے وی او اے سے گفتگو میں کہا کہ وہ تقریباً دس، بارہ سال پہلے گلستان جوہر سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ اس وقت یہ علاقہ اتنا ڈیولپ نہیں تھا۔ البتہ، سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کے ملازمین کو یہ جگہ اس لئے بھی پسند تھی کہ انہیں روزانہ ایئرپورٹ جانے آنے کے لئے زیادہ سفر طے نہیں کرنا پڑتا تھا۔ “
شمیم الدین نے بتایا کہ اس وقت یہاں ہر قوم اور ہر نسل کے لوگ آباد ہیں جبکہ کرائے پر بھی مکانات ملنا کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے دہشت گردوں نے ایئرپورٹ جانے کے لئے یہی راستہ اختیار کیا ہو یا وہ کچھ عرصے پہلے ریکی کی غرض سے یہاں آکر مقیم ہوگئے ہوں۔
کراچی کے دیرینہ رہائشیوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ پہلوان گوٹھ انٹرنیشنل ایئرپورٹ جیسے حساس مقام سے متصل واحد بستی نہیں ہے جہاں کی آبادی کسی ایک قوم یا ایک نسل کا مسکن ہو بلکہ بھٹائی آباد، گولڈن ٹاوٴن، شاہ فیصل کالونی، ملیر، سعود آباد، گرین ٹاوٴن، شمسی کالونی، الفلاح سوسائٹی، جعفر طیار سوسائٹی اور فیصل ٹاوٴن جیسے علاقے اتنے گنجان اور وسیع ہیں کہ اگر غلطی بھی کوئی راستہ بھول جائے تو اسے باہر آنے میں کئی گھنٹے لگ جائیں۔
ان آبادیوں سے ایئرپورٹ پر آنے جانے والے طیاروں کو اکثر پرندوں سے ٹکرانے سے نقصان پہنچتا رہتا ہے۔ حکومت کو ایئرپورٹ سے پرندوں کو دور رکھنے کے لئے باقاعدہ شوٹرز کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں، جبکہ عیدالاضحی کے دنوں میں باقاعدہ اشتہارات دینے پڑتے ہیں کہ شہری ایئرپورٹ سے متصل علاقوں کو صاف ستھرا رکھیں، تاکہ پرندے نہ آئیں۔ لیکن اس کے باوجود، قومی ایئرلائنز سے پرندوں کے ٹکرانے کے واقعات بہت عام ہیں۔
کچھ سال پہلے اسی ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والے ایک طیارے کو آگ لگ گئی تھی اور پائلٹ کو مجبوری فیول ٹینک آبادی پر ہی گرانا پڑا تھا۔ یہ ٹینک لیاقت آباد کے کئی مکانوں کے انسانوں کے لئے جانی و مالی نقصان کا باعث بنا تھا ۔
اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ ماہ یعنی مئی میں بھی پیش آچکا ہے جب ایک چھوٹا طیارہ دوران پرواز یوسف گوٹھ میں واقع بس ٹرمینل پر گرا جس سے کافی مالی اور جانی نقصان ہوا۔
روز روز بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کو دیکھیں تو ایئرپورٹ سے متصل بہت سی آبادیاں ایسی ہیں جن کی چھتوں کے بہت قریب سے ہوکر طیارے فضاء میں بلندہوتے اور لینڈ کرتے ہیں۔ دہشت گرد ان چھتوں سے کوئی بھی کارروائی کرسکتے ہیں لہذا اس پہلو پر قبل از وقت ہی سوچنا ہوگا ۔
پھر شہر میں ناجائز اسلحہ کی بھی بھرمار ہے ، مختلف تہواروں اور خوشی کے مواقع پر چھتوں پر سے ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے اور ایسی بھی کئی واقعات ریکارڈ پر ہیں جبکہ ہوائی فائرنگ سے طیارے بال بال بچے ہوں۔
گنجان آباد بستیوں کے سبب کراچی ایئرپورٹ کو اس قسم کے خطرات کا ہمیشہ سامنا رہے گا تاوقتیکہ ائیرپورٹ دوسری جگہ منتقل نہ کردیا جائے۔ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور اتوار و منگل کو ائیرپورٹ پر ہونے والے حملوں کے بعد لازمی ہوگیا ہے کہ ارباب اختیار نئے ائیرپورٹ کی تعمیر کے سلسلے میں سنجیدگی سے سوچیں۔
وہ مزید کہتے ہیں: ’موجودہ ایئرپورٹ تعمیر کے دنوں میں ہوسکتا ہے شہر کے ہنگاموں اور گنجان آباد بستیوں سے دور یا شہر کے ایک کونے پر ہو۔ لیکن، اب کراچی کا ’قائد اعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ ’انسانی بستیوں سے پوری طرح گھر گیا ہے۔ مین راستوں کے علاوہ ذیلی سڑکیں اور بغلی راستے اس کے اندر سے ہوکر گزرتے ہیں جو سیکورٹی کے لئے مسلسل خطرہ ہیں۔‘
شہر قائد کا ایک بڑا مسئلہ کچی اور غیر قانونی بستیاں بھی ہیں۔ یہ بستیاں بے ہنگم طریقے سے پرورش پاتی رہی ہیں۔ لہذا، نہ تو یہاں رہنے والوں کا کوئی ڈیٹاحکومتی ریکارڈ میں ہے اور نہ ہی ان پر کسی قسم کی کوئی نگرانی ہوتی رہی ہے۔
اس بات کی سب سے بڑی مثال پہلوان گوٹھ اور بھٹائی گوٹھ ہیں، جن کا شمار کچی بستیوں میں ہوتا تھا۔ مگر، وقت کے ساتھ ساتھ، دوسرے شہروں اور علاقوں سے آنے والے افراد اپنے اپنے طور پر بستے چلے گئے۔علاقہ گنجان ہوا تو لوگوں نے اپنے طور پر راستے اور گلیاں بھی خود ہی بنالیں۔ اس آبادی میں اس وقت زیادہ تر ایسے افراد رہتے ہیں جو ایئرپورٹ یا اس سے متصل دفاتر و تجارتی مراکز میں کام کرتے ہیں۔ پی آئی اے کے ملازمین کی بڑی تعداد بھی یہیں رہتی ہے اور وہ بھی ایئرپورٹ جانے کے لئے یہی راستہ اختیار کرتی ہے۔
پہلوان گوٹھ کے دیرینہ رہائشی اور پی آئی اے کے ایک ملازم، شمیم الدین نے وی او اے سے گفتگو میں کہا کہ وہ تقریباً دس، بارہ سال پہلے گلستان جوہر سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ اس وقت یہ علاقہ اتنا ڈیولپ نہیں تھا۔ البتہ، سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کے ملازمین کو یہ جگہ اس لئے بھی پسند تھی کہ انہیں روزانہ ایئرپورٹ جانے آنے کے لئے زیادہ سفر طے نہیں کرنا پڑتا تھا۔ “
شمیم الدین نے بتایا کہ اس وقت یہاں ہر قوم اور ہر نسل کے لوگ آباد ہیں جبکہ کرائے پر بھی مکانات ملنا کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے دہشت گردوں نے ایئرپورٹ جانے کے لئے یہی راستہ اختیار کیا ہو یا وہ کچھ عرصے پہلے ریکی کی غرض سے یہاں آکر مقیم ہوگئے ہوں۔
کراچی کے دیرینہ رہائشیوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ پہلوان گوٹھ انٹرنیشنل ایئرپورٹ جیسے حساس مقام سے متصل واحد بستی نہیں ہے جہاں کی آبادی کسی ایک قوم یا ایک نسل کا مسکن ہو بلکہ بھٹائی آباد، گولڈن ٹاوٴن، شاہ فیصل کالونی، ملیر، سعود آباد، گرین ٹاوٴن، شمسی کالونی، الفلاح سوسائٹی، جعفر طیار سوسائٹی اور فیصل ٹاوٴن جیسے علاقے اتنے گنجان اور وسیع ہیں کہ اگر غلطی بھی کوئی راستہ بھول جائے تو اسے باہر آنے میں کئی گھنٹے لگ جائیں۔
ان آبادیوں سے ایئرپورٹ پر آنے جانے والے طیاروں کو اکثر پرندوں سے ٹکرانے سے نقصان پہنچتا رہتا ہے۔ حکومت کو ایئرپورٹ سے پرندوں کو دور رکھنے کے لئے باقاعدہ شوٹرز کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں، جبکہ عیدالاضحی کے دنوں میں باقاعدہ اشتہارات دینے پڑتے ہیں کہ شہری ایئرپورٹ سے متصل علاقوں کو صاف ستھرا رکھیں، تاکہ پرندے نہ آئیں۔ لیکن اس کے باوجود، قومی ایئرلائنز سے پرندوں کے ٹکرانے کے واقعات بہت عام ہیں۔
کچھ سال پہلے اسی ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والے ایک طیارے کو آگ لگ گئی تھی اور پائلٹ کو مجبوری فیول ٹینک آبادی پر ہی گرانا پڑا تھا۔ یہ ٹینک لیاقت آباد کے کئی مکانوں کے انسانوں کے لئے جانی و مالی نقصان کا باعث بنا تھا ۔
اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ ماہ یعنی مئی میں بھی پیش آچکا ہے جب ایک چھوٹا طیارہ دوران پرواز یوسف گوٹھ میں واقع بس ٹرمینل پر گرا جس سے کافی مالی اور جانی نقصان ہوا۔
روز روز بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کو دیکھیں تو ایئرپورٹ سے متصل بہت سی آبادیاں ایسی ہیں جن کی چھتوں کے بہت قریب سے ہوکر طیارے فضاء میں بلندہوتے اور لینڈ کرتے ہیں۔ دہشت گرد ان چھتوں سے کوئی بھی کارروائی کرسکتے ہیں لہذا اس پہلو پر قبل از وقت ہی سوچنا ہوگا ۔
پھر شہر میں ناجائز اسلحہ کی بھی بھرمار ہے ، مختلف تہواروں اور خوشی کے مواقع پر چھتوں پر سے ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے اور ایسی بھی کئی واقعات ریکارڈ پر ہیں جبکہ ہوائی فائرنگ سے طیارے بال بال بچے ہوں۔
گنجان آباد بستیوں کے سبب کراچی ایئرپورٹ کو اس قسم کے خطرات کا ہمیشہ سامنا رہے گا تاوقتیکہ ائیرپورٹ دوسری جگہ منتقل نہ کردیا جائے۔ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور اتوار و منگل کو ائیرپورٹ پر ہونے والے حملوں کے بعد لازمی ہوگیا ہے کہ ارباب اختیار نئے ائیرپورٹ کی تعمیر کے سلسلے میں سنجیدگی سے سوچیں۔