نیوکراچی کا علاقہ کمہار واڑہ! کچھی برادری کی پسماندہ بستی جہاں تقریباً500 مکانات میں مٹی کے برتن بنانے والے رہتے ہیں جنہیں کوزہ گر بھی کہا جاتا ہے۔ کمہارواڑہ کے لفظی معنی بھی ایسی جگہ ہیں جہاں کمہار رہتے ہوں۔ کراچی کی سب سے پرانی بستی کمہار واڑہ دراصل لیاری کے قریب ہوا کرتی تھی مگر اب یہ نیوکراچی منتقل ہوگئی ہے۔
اس منتقلی کی وجہ اسی علاقے میں واقع 'اکھاڑے' کے مالک ارشد حسین بتاتے ہوئے کہتے ہیں "مٹی کے برتن بنانے کے لئے خاص قسم کی مٹی درکار ہوتی ہے جو مخصوص قسم کے پہاڑوں سے ہی لائی جاتی ہے ۔ لیاری کے کمہار واڑہ کے آس پاس آبادی زیادہ اور پہاڑ ناپید ہوگئے تھے اس لئے وہ علاقہ چھوڑ کر نیو کراچی آنا پڑا۔ یہاں قریبی پہاڑوں سے مٹی لائی جاتی ہے، انہیں کارخانوں میں لگی ہوئی مشینوں کے ذریعے مخصوص پروسیس سے گزارا جاتا ہے جس میں کم سے کم آٹھ یا نو دن چاہئے ہوتے ہیں۔ یہیں مٹی گیلی بھی کی جاتی ہے اور یہیں سے یہ مٹی مختلف اکھاڑوں میں پہنچا دی جاتی ہے"۔
حرف عام میں اکھاڑے سے مراد وہ جگہ لی جاتی ہے جہاں پہلوان کشتی لڑتے ہیں مگر ارشد حسین بتاتے ہیں کہ کمہاروں کی اپنی 'بولی' میں' اکھاڑہ' اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں کمہار مٹی کے برتن بناتا ہے۔
ارشد حسین نے وی او اے کے نمائندے کو بتایا "اب سے کئی سال پہلے تک ہاتھ سے چلنے والے چاک پر مٹی کے برتن بنائے جاتے تھے مگر اب بجلی سے چلنے والے چاک بھی مارکیٹ میں ملتے ہیں مگر چونکہ ان کی رفتار یکساں رہتی ہے اس لئے صرف کھیر کی پیالیاں وغیرہ ہی ان پرتیار ہوتی ہیں جبکہ بڑی چیزیں مثلاً گملے وغیرہ آج بھی ہاتھ سے چلنے والے چاک پر ہی بنتے ہیں۔ جبکہ کچھ چیزیں چکی پر بھی بنائی جاتی ہیں۔ چاک کو ہاتھ سے اور چکی کو پیر سے چلاتے ہیں اور بنیادی طور پر دونوں میں یہی فرق ہے"۔
ارشد حسین کی عمر اس وقت یہی کوئی تیس پینتس سال ہوگی لیکن ان کو مٹی گوندھتے ہوئے کوئی دیکھے تو ہاتھوں کی مہارت سے ہی تجربے کا اندازہ لگاسکتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں "میں بچپن سے ہی اس پیشے میں آگیا تھا۔ میرے والد بھی یہی کام کرتے تھے مگروہ مزدور تھے۔ اس وقت مجھے دن بھر کے کام کی 'خرچی' بیس پیسے ملا کرتی تھی"۔
ایک سوال پر انہوں نے مزید بتایا: "اب میں اس اکھاڑے کا مالک ہوں اور اللہ داد جو ادھر۔۔۔ سامنے بیٹھا پیالیاں بنارہا ہے وہ میرا ٹھیکے دار ہے ۔ یہ دن بھر میں دو سے ڈھائی ہزار پیالیاں بناتا ہے ۔ اس کی ایک دن کی اجرت ڈھائی سو روپے ہے اور جو لڑکا اس کے پاس بیٹھا ہے ۔۔ ایوب، اس کی اجرت بیس روپے ہے۔
( تصاویر: وسیم اے صدیقی )
ارشد حسین کو گلہ ہے کہ حکومت ان کے فن کی کوئی سرپرستی نہیں کرتی۔ اسی وجہ سے یہ فن ختم ہوتا جارہا ہے، نئے کاریگر اس فیلڈ میں نہیں آرہے، ان کو لگتا ہے کہ اس کام کا اب کوئی مستقبل نہیں رہا۔
ارشد حسین کی طرح ہی ایک اور کاریگر محمد اکبر کا کہنا ہے کہ وہ گملے بناتے ہیں اور ہاتھ سے چلنے والے چاک پر کام کرنے کے عادی ہیں۔ انہیں کام کرتے ہوئے بائیس سال ہوگئے۔ یہ ان کا خاندانی کام ہے مگر ان کے بچے اس فیلڈ میں نہیں۔ انہیں نہ شوق ہے نہ آنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام سیکھنے کیلئے دو سے تین سال درکار ہوتے ہیں مگر یہ جتنا محنت طلب کام ہے اتنا اس کام میں منافع نہیں۔ اب چونکہ عمر گزر گئی اس کام کو کرتے ہوئے تو چھوڑ بھی نہیں سکتے۔
مٹی کی کوزہ گری غریبوں کی روزی روٹی ہے تو امیروں کے لئے ان کے بنائے ہوئے فن پارے محلوں اور بنگلوں میں سجانا ایک فیشن۔ پوش ایریاز میں قائم اسکولوں میں بچوں کو مٹی کی جگہ پلاسٹی شین سے کھلونے بنانا سکھایا جاتا ہے۔ آرٹ کے دلدادہ طلبہ و طالبات مٹی کے فن پارے بنانے کے شوق میں باقاعدہ انسٹی ٹیوٹس سے یہ فن سیکھ رہے ہیں مگر یہ خاصا مہنگا شوق ہے اور سب لوگ اسے اپنا نے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے۔
کراچی میں کلفٹن کے ساحل کے قریب واقع ایک ماڈرن اسکول میں بھی یہ فن سکھایا جاتا ہے اور محمد حسین پچھلے کئی برس سے انسٹرکٹر کی حیثیت سے یہ فن بچوں میں منتقل کررہے ہیں۔ وہ اپنے فن میں خاصی مہارت رکھتے ہیں اور الیکٹرک چاک پر بچوں کو نئی سی نئی چیزیں بنانا سکھاتے ہیں۔ ان کی آمدنی ہزاروں میں ہے ۔ پھر اسکول کے بعد وہ دوسرے پوش علاقے میں گھر گھر جاکر بھی یہ ہنر سکھاتے ہیں مگر ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ اب یہ فن شوق کی حددو سے آگے نہیں جاتا۔ یہ ایسا فن ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ رہا ہے۔
کرافٹ اور کوزہ گری کی رسیا ایک خاتون گوہر سلیمان کا کہنا ہے "ایک دور میں مٹی کی ہانڈی میں کھانا پکایا جاتا تھا مگر اب صرف چند ایک کھانوں کے لئے ہی مٹی کی ہانڈی استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً سرسوں کا ساگ ۔ یا پھر مولی کا اچار ڈالنے وغیرہ کے لئے مٹی کی مرتبانی یا برنی استعمال ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مٹی کی ہانڈی میں بنا کھانا اور مٹی کے مرتبان میں پڑا اچار لاکھوں میں بھی سستا ہے۔ اس کی قدر بھی سب نہیں جانتے"۔
ان کا مزید کہنا ہے: "جب سے کوکنگ سائنس کا رجحان میڈیا پر بڑھا ہے تب سے مٹی کے برتنوں میں کھانوں کا رواج ایک مرتبہ پھر ان' ہورہا ہے۔ کچھ جدید طرز کے ہوٹلز میں تو مٹی کے برتنوں میں ہی کھانا بھی پروسا جانے لگا ہے۔ علاقے علاقے کی بات ہے"۔
واقعی صحیح کہنا ہے ان کا۔ علاقے علاقے کی بات ہے۔۔۔ پوش ایریا میں مٹی کے برتن ائیرکنڈیشن مارکیٹو ں میں ملتے ہیں تو عام بازاروں میں یہ ٹھیلوں پر بکتے ہیں۔۔۔ یہاں ائیرکنڈیشن کا کوئی وجود نہیں۔ ان علاقوں میں چلچلاتی ہوئی دھوپ میں مٹی کی ہانڈیاں، گلدان، کھلونے، برتن، کونڈے، چراغ، گّلک،مورتیاں، پانی کے کولر، جھاوٴئیں۔۔۔اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔ رکھے ریڑھی گھسٹتا ایک بوڑھا شخص اب بھی کئی لوگوں کا پیٹ انہیں مٹی کے برتنوں کو بیچ کر بھر تاہے۔۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ اس کی چھوٹی بیٹی ان کھلونوں سے کھیلنا آج تک نہیں سیکھی۔ اسے ڈرلگتا ہے اگر کھلونا ہاتھ سے چھوٹ گیا تو اس کا بابا ناراض ہوگا۔