دو اگست کی شام کو شروع ہونے والے ہنگاموں کے بعد آج چوتھے روز کراچی میں معمول کی سرگرمیاں جزوی طور پردوبارہ بحال ہوگئیں ۔ تاہم اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے آج بھی بند رہے۔ گزشتہ شب ہی صوبائی حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کردیا تھا کہ شہر کے حالات معمول پر آنے تک تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں گی لہذا اسکول بند ہونے کی وجہ سے لوگوں نے دیر تک سونا پسند کیا۔ سرکاری و نجی دفاتر میں کام کرنے والے افراد نے صبح صبح حالات کا جائزہ لینے کے لئے بس اسٹاپس اور سڑکوں کا رخ کیا مگر سناٹا اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کے سبب وہ گھروں کو لوٹ آئے۔
تین دن تک جاری رہنے والے ہنگاموں کے دوران ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے بارے میں حکومت کی جانب سے کوئی حتمی اعداد وشمار جاری نہیں ہوئے تاہم ذرائع ابلاغ نے مجموعی طور پر80سے زائد لوگوں کے لقمہ اجل بن جانے اور درجنوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات دیں۔اطلاعات کے مطابق آج شام تک مرنے والوں کی تعداد 80 سے زائد بتائی جاتی رہی ۔
ہنگاموں کے دوران متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کردیا گیا اس لئے ٹرانسپورٹرز نے حفاظتی اقدامات کے طور پر آج بھی گاڑیاں نہیں چلائیں۔یوں شہر کی سڑکوں سے بسیں اور منی بسیں غائب رہیں۔ البتہ رکشا، ٹیکسی، نجی گاڑیاں اور دیگر ذرائع آمد و رفت دن بھر سڑکوں پر دوڑتے رہے۔ ٹرانسپورٹس میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ شہر کے بیشتر پیٹرول پمپس دن بھر بند رہے۔ غالباً یہ اقدام بھی حفاظتی طور پر اٹھایا گیا۔ بعض علاقوں میں پیٹرول پمپس کھلے مگر پولیس اور رینجرز کی نگرانی میں۔
اخبارات اور ٹی وی چینلز نے گزشتہ شب فائرنگ اور جلاوٴگھیراوٴکی اطلاعات دیں تاہم سرکاری طور پر دفاتر میں حاضری کم ہونے کی وجہ سے کوئی سرکاری ہینڈ آوٴٹ سہ پہر تک جاری نہیں ہوسکا۔
شہر کے متوسط علاقوں میں دکانیں اور کچھ کاروباری مراکز صبح دیر سے کھلے جن پر خریداروں کا رش رہا لیکن بڑی مارکیٹیں بند رہیں۔ محلے کے زیادہ تر ہوٹلز بھی بند رہے۔ نارتھ کراچی کے علاقے شادمان ٹاوٴن میں واقع ایک ہوٹل کے مالک محمد الیاس نےوائس آف امریکہ کو آج ہوٹل نہ کھولنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا"بھائی کراچی کے حالات اور موسم کا کچھ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے، اس لئے ہم نےایک دن اور بند رکھ کر حالات کا جائزہ لینے کا سوچا"۔
شہر کے اکثر سبزی اور پھل فروشوں کے ٹھیلے بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ ناگن چورنگی کے علاقے میں پھل بیچنے والے محمد علی نے وائس آف امریک کو بتایا کہ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ مارکیٹ نہیں جاسکے اس لئے آج کے بجائے کل ٹھیلا لگائیں گے۔ اسی علاقے کے کچھ سبزی فروشوں نے سبزی منڈی بند ہونے اور بعض نے وہاں تک رسائی نہ ہوسکنے کے سبب اپنا کام بند رکھا۔
شہر کی گوشت مارکیٹیں بھی بند رہیں مگر جو خوف و ہراس کی فضاء گزشتہ تین روز سے قائم تھی وہ آج معمول کی طرف پلٹتی محسوس ہوئی ۔ شہر سے کشیدگی کے بادل چھٹتے صاف محسوس ہوئے۔مبصرین اندازہ لگا رہے ہیں کہ حالات مزید معمول پر آجائیں گے اور کراچی کی تیز رفتار زندگی اپنے محور پر لوٹ آئے گی ۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1