کے ای ایس سی ملازمین ایک بار پھر ہڑتال پر

کے ای ایس سی ملازمین ایک بار پھر ہڑتال پر

کے ای ایس سی نے رواں سال جنوری میں رضاکارانہ ریٹائرمنٹ اسکیم سے استفادہ نہ کرنے والے اپنے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو برطرف کردیا تھا جس پر ملازمین کے چار روزہ احتجاج کے باعث کے ای ایس سی نے حکومت سے مذاکرات کے بعد ان کی بحالی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔ تاہم مزدوریونین کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انھیں بحال تو کردیا گیالیکن صرف حاضری کی حد تک یعنی انتقاماً اضافی قرار دے کر سرپلس پول میں رکھا گیا ہے ۔

کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے ملازمین کی انتظامیہ کے رویہ کے خلاف اور اپنے مسائل حل نہ ہونے تک جاری ہڑتال بدھ کو تیرھویں روزمیں داخل ہوچکی ہے اور اب اس کے اثرات نے شہریوں کی اقتصادی و سماجی زندگی کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کا کہنا ہے کہ ہڑتال کے باعث ادارے کی معمول کی سرگرمیاں متاثر ہونے سے شہرکو بجلی کی فراہمی میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کے ای ایس سی کے جنرل منیجر امین الرحمان نے الزام لگایا ہے کہ ہڑتال کرنے والے ملازمین دیگر ملازمین کو کام سے روکنے اور ان پر تشدد کے علاوہ دفاتر کی توڑپھوڑ سمیت ادارے کے اثاثوں اورتنصیبات کو بھی نقصان پہنچارہے ہیں جس کی وجہ سے ٹیپو سلطان روڈ اور پی ای سی ایچ ایس پر ان کے اہم مراکزتاحال بند ہیں جبکہ سوک سینٹر پر موجود شکایتی مرکز کو بدھ کی صبح کھول دیا گیا ہے۔ اس صورتحال کے باعث بعض مراکز میں ملازمین غیر حاضر ہیں جس سے بجلی کی بحالی اور دیگر معمولات میں خلل پیدا ہورہا ہے۔

کے ای ایس سی ملازمین ایک بار پھر ہڑتال پر

انھوں نے بتایا کہ طارق روڈ ،پی ای سی ایچ ایس اور گارڈن کے علاقوں میں گذشتہ رات 48 گھنٹوں کے بعد بجلی بحال کی جاسکی کیوں کہ یہاں زیرِ زمین تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا تھا اور ان علاقوں کے 20 ہزار گھر متاثر ہوگئے تھے۔ واضح رہے کہ ان علاقوں میں طویل دورانیے تک بجلی نہ ہونے کی وجہ سے علاقہ مکینوں اور تاجروں نے منگل کو سڑکوں پر احتجاج بھی کیا تھا۔

دوسری جانب مزدور یونین کے سربراہ محمد اخلاق نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہر میں بجلی کا موجودہ بحران ملازمین کے احتجاج کے باعث نہیں بلکہ انتظامیہ کی نااہلی ہے جسے چھپانے کے لیے وہ اس کا ملبہ مزدوروں پر ڈال رہی ہے۔

محمد اخلاق کے بقول 2005 ء میں جب سے کے ای ایس سی کی نج کاری ہوئی ہے شہر بجلی کے بحران کا شکار ہے اس لیے شدید گرمی میں ردعمل کے طور پر دفاتر کی توڑ پھوڑ اور گاڑیوں کا جلاوٴ اب کوئی نئی بات نہیں۔ ان کے بقول نج کاری سے پہلے کے ای ایس سی کی پیداوار 1710 میگاواٹ تھی لیکن تنصیبات کی مناسب مرمت اور تقسیم کا نظام صحیح نہ ہونے اور دیگر وجوہات کے باعث یہ پیداوار گھٹ کر اب چار سو سے چھ سو کے درمیان رہ گئی ہے۔

محمد اخلاق

ان کا کہنا تھا ” ہم اپنے حقوق کے حصول اور انتظامیہ کے انتقامی رویہ کے خلاف احتجاج پر یہاں تیرہ روز سے بیٹھے ہیں۔ نہ ہی کام میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور نہ ہی کہیں توڑ پھوڑ کی ہے۔ بلکہ ایک سازش کے تحت ہماری تحریک کو متاثر کرنے اورہمیں بدنام کرنے کے لیے انتظامیہ خود اپنے ہی لوگوں کے ذریعے ایسے اقدامات کر رہی ہے کہ بحران پیدا ہو۔“

کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج میں شامل کے ای ایس سی کے سینکڑوں ملازمین میں سے 60 کے قریب علامتی اور مکمل بھوک ہڑتال پر ہیں جن میں سے پندرہ کو طبیعت کی خرابی کے باعث ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ انھیں ان کے انتظامی فرائض انجام دینے دئیے جائیں اور ان سے انتقامی رویے کا خاتمہ کیا جائے۔

کے ای ایس سی نے رواں سال جنوری میں رضاکارانہ ریٹائرمنٹ اسکیم سے استفادہ نہ کرنے والے اپنے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو برطرف کردیا تھا جس پر ملازمین کے چار روزہ احتجاج کے باعث کے ای ایس سی نے حکومت سے مذاکرات کے بعد ان کی بحالی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔ تاہم مزدوریونین کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انھیں بحال تو کردیا گیالیکن صرف حاضری کی حد تک یعنی انتقاماً اضافی قرار دے کر سرپلس پول میں رکھا گیا ہے ۔ اس د وران ان سے کوئی کام نہیں لیا گیا بلکہ ان کے کام کے لیے دوسرے لوگ بھرتی کیے گئے۔ ۔ایسے میں وہ اور ان کے ساتھی اپنا کام کیسے جاری رکھ سکتے ہیں۔

کے ای ایس سی ملازمین ایک بار پھر ہڑتال پر


دوسری جانب مزدوروں کی ہڑتال کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے ہوئے ادارے کے عہدیدار امین الرحمان نے بتایا کہ احتجاج کرنے والے ملازمین ابھی تک پے رول پر ہیں اور انھیں تنخواہیں مل رہی ہیں ۔ کے ای ایس سی نے اپنے جاری کیے گئے اعلامیہ میں حکومت سے تعاون کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حرکت میں آجانے کے بعد کمپنی کے اثاثہ جات اور تنصیبات ، دفاتر اور ملازمین پر حملے بند ہوجائیں گے۔

گورنر سندھ نے کے ای ایس سی کے اثاثوں کو نقصان پہنچانے کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کے ای ایس سی کی تنصیبات کو محفوظ بنائیں۔ تاہم منگل کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بجلی کی صوبائی وزیر شازیہ مری نے ایوان کو بتایا کہ حکومت اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے انتظامیہ اور مزدروں سے رابطے میں ہے ۔