ارکان آباد، کراچی کی ایسی بستی ہے جہاں دور دور تک روہنگیا برادری رہتی ہے۔ 1962 میں سابق صدر ایوب خان نے اس وقت کے ’برما‘ سے آنے والے روہنگیا لوگوں کے لئے آباد کی تھی۔
بستی کے ایک دیرینہ رہائشی، سماجی کارکن اور ’روہنگیا سالیڈیرٹی آرگنائزیشن‘ کے ترجمان نور حسین ارکان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ: ’’ اس دور میں روہنگیا برادری برما سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان کے شہر چٹاگانگ آیا کرتی تھی۔ یہاں سے لوگ بحری جہازوں سےکراچی آیا کرتے تھے ۔‘‘
بستی آج بھی نا صرف آباد ہے بلکہ اپنا حدود و حربہ بڑھا رہی ہے۔ آج پاکستان میں روہنگیا برادری کی آبادی تقریباً تین لاکھ ہے۔ ان میں سے 50ہزار سے زائد لوگ اس بستی یعنی ’ارکان آباد‘ میں مقیم ہیں۔اس کے بعد برمی کالونی، علی اکبر شاہ گوٹھ، اورنگی ٹاؤن، لانڈھی، کورنگی،بن قاسم، کیماڑی اور مچھر کالونی کا نمبر آتا ہے۔
سن 1973 میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شناختی کارڈ کا نظام رائج کیا تو، بقول نور حسین، ’’گھر، گھر شناختی کارڈ پہنچائے گئے۔ پھر جب انہیں کمپیوٹرآئزڈ کیا گیا تو بھی روہنگیا برادری کو باقی افراد کی طرح کارڈ ملے۔ لیکن جیسے ہی ان کی مدت ختم ہوئی روہنگیا برادری کے شناختی کارڈز رویونیو ہونا بند کر دیئے گئے۔‘‘
شناختی کارڈ جاری کرنے والے ادارے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی یعنی ’نادرہ‘ کے اہلکار اس سلسلے میں کچھ بتانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ لیکن، رواں سال جاری کی گئی یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق،’’پاکستانی حکومت نامعلوم تعداد میں موجود ایسے بے وطن افراد کی میزبانی کررہی ہے جن کی قومیت کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا ۔ان میں کراچی میں رہائش پذیر روہنگیا بھی شامل ہیں۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملکی پالیسی کے مطابق ’’روہنگیا ۔۔ ’پناہ گزینوں‘ یا ’مہاجرین‘ کی شرائط پر پورے نہیں اترتے‘‘۔۔ لیکن حکومت نے کیونکہ یہ واضح نہیں کیا کہ بے وطن لوگوں کے کیا حقوق ہیں اس لئے پاکستان میں موجود روہنگیا افراد کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔
اسی سبب روہنگیا افراد کو شناختی کارڈ جاری نہیں ہو رہے نا ہی ان کی تجدید کی جارہی ہے جبکہ پاکستان میں پیدائش کے سرٹیفکیٹ سے لیکر ڈیٹھ سرٹیفکیٹ تک اور خاص طور سے شہریت ثابت کرنے کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ لازمی ہے۔ روہنگیا برادری اس وقت سب سے زیادہ اسی مسئلے سے دور چار ہے۔
بیشتر روہنگیا ’ارکان آباد‘ سے سمندر انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے ماہی گیری کو ترجیح دیتے ہیں۔ صبح سویرے چھوٹی کشتیوں یا لانچوں میں سوار ہو کر انہیں گہرے سمندروں کا سفر کرنا ہوتا ہے۔ اکثر افراد کی یہ کام کرتے عمریں گزر گئیں۔ ان کی زندگی کا دار و مدار یہی سمندر ہے۔
نور محمد ارکان کہتے ہیں ’’روہنگیا برادری کے زیادہ تر افراد ماہی گیر ہیں۔ لیکن، شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ’’فشنگ پرمٹ‘‘ نہیں بن رہا۔ پرمٹ بھی شناختی کارڈ کی بنیاد پر بنتا ہے۔ پرمٹ اور شناختی کارڈ نہ ہونے کے سبب لوگ بیروز گار ہوگئے ہیں۔ ‘‘
ماہی گیری کے علاوہ روہنگیا کی بڑی تعداد مختلف فیکٹریوں میں ملازمت کرتی تھی لیکن نئے قوانین کے تحت فیکٹری مالکان شناختی کارڈ نہ رکھنے والوں کو ملازمت نہیں دے سکتے۔خلاف ورزی کی صورت میں انہیں بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ لہذا، فیکٹری کے دروازے بھی روہنگیا برادری کے لئے بند ہوگئے۔ اب یہ لوگ گلی محلوں میں سبزیاں بیچنے بھی جائیں تو پولیس انہیں گرفتار کر لیتی ہے۔
شناختی کارڈ نہ ہونے کے سبب حاملہ خواتین کو بھی اسپتالوں میں داخل نہیں کرایا جا سکتا۔ اسکولوں میں داخلے پہلے ہی بندہیں۔ اس پر غربت بھی کچھ کم نہیں۔ لوگ تنگ گلیوں اور چھوٹے و اندھیرے مکانوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور لڑکیوں کو بھی معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ نبی حسین کا گھرانہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ وہ گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں اور زیادہ محنت والا کام نہیں کرسکتے اس لئے بیٹیاں قالین بن کر ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔
وہ آدھا دن پڑھتی اور باقی دن گھر کے چھوٹے سے صحن میں بنی کھڈی پر قالین بنتی ہیں تاکہ گھر کا خرچ چل سکے۔ لیکن، اس کام سے ملنے والی اجرت ناکافی ہے۔
روہنگیا برادری کے اکثر مرد محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اس مزدوری میں مچھلی کے جال بننا سرفہرست ہے۔ ابراہیم حیدری ہو یا ارکان آباد تمام بسیتوں کے مرد اور نوجوان زیادہ تر یہی کام کرتے ہیں ۔ دن بھر جال بننے سے آمدنی کتنی ہوتی ہوگی، ان کے حالات دیکھ کر اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
پورا دن کام کرنے کے بعد بھی بیشتر افراد کی کمائی چند روپوں سے زیادہ نہیں ہوپاتی۔ گھر کا خرچ اور بچوں و دیگر اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے بعد ان کے پاس موبائل فون تک خریدنے کی ہمت کم ہی لوگوں کے پاس ہے۔
تمام روہنگیا میانمار کے موجودہ حالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ لیکن چاہ کر بھی وہ میانمار میں موجود اپنے عزیز و اقارب سے رابطہ نہیں کرسکتے۔ کچھ پیسے کی تنگی اور کچھ موبائل کالز کا خرچہ انہیں اپنے پیاروں سے دور کئے ہوئے ہے۔