ان شدت پسندوں کے قبضے سے ایک بچے کو بھی بازیاب کرایا گیا۔ پولیس کے مطابق اس بچے کو 22 مارچ کو اغوا کیا گیا تھا اور اغوا کاروں نے دو کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کر رکھا تھا۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف پولیس و رینجرز کی کارروائیاں جاری ہیں اور ہفتہ کو بلدیہ ٹاؤن کے علاقے اتحاد ٹاؤن میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے گزشتہ ماہ اغوا ہونے والے چھ سالہ بچے کو بازیاب کرالیا۔
پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نیاز کھوسو نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کارروائی میں اغوا کاروں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دو ملزمان ہلاک جب کہ ان کے دو ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
پولیس کے مطابق اس بچے کو 22 مارچ کو اغوا کیا گیا تھا اور اغوا کاروں نے دو کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کر رکھا تھا۔
نیاز کھوسو کے بقول علاقے کو گھیرے میں لے کر فرار ہونے والوں کو تلاش کرنے کی کارروائی بھی شروع کی جا چکی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مارے جانے والے دونوں شدت پسندوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔
ملک کے اقتصادی مرکز میں حالیہ مہینوں کے دوران امن و امان کی صورتحال ایک بار پھر تشویشناک صورتحال اختیار کر گئی ہے۔ بم و کریکر دھماکے، اغوا برائے تاوان اور ہدف بنا کر قتل کرنے جیسی وارداتوں سے شہری خوف و ہراس کا شکار ہیں۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے رواں ہفتے میں کراچی میں بد امنی کیس کی سماعت کرتے ہوئے پولیس، رینجرز اور دیگر متعلقہ اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ سات روز کے اندر اندر شہر میں نو گو ایریاز کو ختم کریں۔
شہر کے مختلف علاقوں میں جرائم پیشہ عناصر اور مختلف کالعدم تنظیموں کے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے اپنی آماجگاہیں قائم کررکھی ہیں۔
کراچی پولیس کے حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ امن و امان کو بحال کرنے اور شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں جس میں انھیں خاطر خواہ کامیابی بھی ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ کراچی سے متعدد ایسے لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان اور کالعدم سنی انتہا پسند تنظیم لشکر جھنگوی سے بتایا جاتا ہے۔ ایسی ہی کارروائی میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والا کراچی میں طالبان کا ایک مقامی کمانڈر قاری بلال بھی مارا جاچکا ہے۔
پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نیاز کھوسو نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کارروائی میں اغوا کاروں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دو ملزمان ہلاک جب کہ ان کے دو ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
پولیس کے مطابق اس بچے کو 22 مارچ کو اغوا کیا گیا تھا اور اغوا کاروں نے دو کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کر رکھا تھا۔
نیاز کھوسو کے بقول علاقے کو گھیرے میں لے کر فرار ہونے والوں کو تلاش کرنے کی کارروائی بھی شروع کی جا چکی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مارے جانے والے دونوں شدت پسندوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔
ملک کے اقتصادی مرکز میں حالیہ مہینوں کے دوران امن و امان کی صورتحال ایک بار پھر تشویشناک صورتحال اختیار کر گئی ہے۔ بم و کریکر دھماکے، اغوا برائے تاوان اور ہدف بنا کر قتل کرنے جیسی وارداتوں سے شہری خوف و ہراس کا شکار ہیں۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے رواں ہفتے میں کراچی میں بد امنی کیس کی سماعت کرتے ہوئے پولیس، رینجرز اور دیگر متعلقہ اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ سات روز کے اندر اندر شہر میں نو گو ایریاز کو ختم کریں۔
شہر کے مختلف علاقوں میں جرائم پیشہ عناصر اور مختلف کالعدم تنظیموں کے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے اپنی آماجگاہیں قائم کررکھی ہیں۔
کراچی پولیس کے حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ امن و امان کو بحال کرنے اور شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں جس میں انھیں خاطر خواہ کامیابی بھی ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ کراچی سے متعدد ایسے لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان اور کالعدم سنی انتہا پسند تنظیم لشکر جھنگوی سے بتایا جاتا ہے۔ ایسی ہی کارروائی میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والا کراچی میں طالبان کا ایک مقامی کمانڈر قاری بلال بھی مارا جاچکا ہے۔