کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، چوبیس گھنٹے میں چوبیس ہلاکتیں

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، چوبیس گھنٹے میں چوبیس ہلاکتیں

کراچی کے شہریوں کے لئے جمعہ کا دن نہایت ذہنی اذیت کا باعث تھا۔ ایک ایسا دن جب چاروں طرف سے مرنے مارنے اور آگ برساتی گولیوں و بندوقوں کے چلنے کا شور سنائی دیتا رہا۔ پھر شام ہوئی تو ٹی وی پر سیاسی رہنماوٴں کے ایک دوسرے پر الزامات سے بھری پریس کانفرنسیں آنے لگیں مبصرین کے مطابق جن کے لہجے دیکھ کر عام آدمی کی مایوسی اور پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔

شہر میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں کی تعداد 24 ہوگئی ہے۔مرنے والوں میں وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا ہیلی کاپٹر پائلٹ اور جیو ٹی وی کے رپورٹر ولی خان بابر بھی شامل ہیں۔ ان کے قتل کے خلاف آج شہر بھر اور خاص کرکراچی پریس کلب پر صحافی برادی نے زبردست احتجاج بھی کیا۔

ٹارگٹ کلنگ سے جو علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ اورنگی ٹاوٴن تھا ۔ یہاں ایک ہی دن میں نو لوگوں کو ہلاک کردیا گیا۔ گلستان جوہرمیں واقع رابعہ سٹی دو گروپوں میں تصادم کے باعث گلشن ٹاوٴن کاسب سے زیادہ متاثر علاقہ رہا۔ اسی علاقے میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے سابق میجر اقبال کشمیری ہلاک ہوگئے جو وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے ہیلی کاپٹر پائلٹ بتائے جاتے ہیں۔

حسن اسکوائر کے قریب اے این پی کے ایک رہنما بھی فائرنگ کے سبب زخمی ہوئے ۔ اس واقعے کے بعدشہر میں مزید کشیدگی پھیل گئی اور مختلف علاقوں میں فائرنگ کا سلسلہ زور پکڑ گیا ۔

نارتھ ناظم آباد میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں حجام کی دکان پرفائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول ایک سیاسی جماعت کا سرگرم کارکن تھا۔ ایک شخص کورنگی انڈسٹریل ایریاکے علاقے میں جام صادق پل پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔ قصبہ کالونی میں ایک چار سالہ بچی سمیت چار افراد فائرنگ کا نشانہ بنے۔

لیاقت آباد، کورنگی اور چکرا گوٹھ میں مجموعی طور پر تین افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ بنارس کے علاقے سے بھی فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئیں جن میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ فائرنگ کے نتیجے میں دو درجن سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ کورنگی، ملیر،خواجہ اجمیرنگری اور دیگر علاقوں میں بھی فائرنگ ہوئی۔

ٹارگٹ کلنگ کے خلاف پولیس کے اقدامات

کراچی میں فائرنگ کے واقعات، ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کے واقعات روکنے میں ناکامی پر سی سی پی او کراچی فیاض لغاری نے چھ ایس ایچ اوز کو معطل کردیا۔ ان ایس ایچ اوز کا تعلق اورنگی ٹاوٴن، گلستان جوہر اور لیاقت آباد سے ہے۔ذرائع کے مطابق معطل کئے جانے والے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا امکان ہے۔

ادھر کیپٹل سٹی پولیس آفیسر فیاض لغاری نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ اورنگی ٹاوٴن میں فائرنگ کے تین ملزمان کو گرفتار کرلیاگیاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حساس علاقوں کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر الزامات

شہر کی موجودہ صورتحال پر ایم کیوایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماوٴں نے اپنی اپنی پریس کانفرنس کے دوران ایک دوسرے پر سخت الزامات عائد کئے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ شہر میں لسانی فسادات کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دو دن میں بیس سے زائد بے گناہ شہریوں کا قتل لمحہ فکریہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد شناخت کے بعد لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جرائم پیشہ عناصر کو اے این پی کی سرپرستی حاصل ہے جو اردو بولنے والے افراد کے خلاف موت کا کھیل کھیل رہی ہے۔

ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ ولی خان بابر کے قتل کو لسانی رنگ دے کر تفتیش کا رخ موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی کی ایم کیو ایم پر بہتان تراشی افسوسناک ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اے این پی اپنی نا اہلی چھپانے کیلئے الزامات لگا رہی ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کا سلسلہ بندکیا جائے۔ پختونوں کو گمراہ کرکے انہیں غلط سمت میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید نے چیف جسٹس سے کراچی کی صورتحال کا از خود نوٹس لینے اور کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کا مطالبہ کیا۔ مردان ہاوٴس میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہی سید کا کہنا تھا کہ نامعلوم افراد کو معلوم کرنا متعلقہ اداروں کا کام ہے، اگر ان اداروں پر سیاسی اثرورسوخ ہے تو اس بارے میں قوم کو بتایا جائے۔

شاہی سید کا کہنا تھا کہ کراچی میں شرپسند عناصر ٹارگٹ کلرز کی شکل میں مضبوط ہوچکے ہیں۔ شاہی سید نے تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ بے گناہ انسانوں کے جان ومال کے تحفظ کیلئے کردار ادا کیا جائے۔

ٹارگٹ کلنگ سے نفسیاتی امراض میں اضافہ

ٹارگٹ کلنگ کے باعث کراچی کے قریب قریب پچیس سے تیس فیصد شہری نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف شہر کی موجودہ صورتحال پر ماہر نفسیات اور کراچی نفسیاتی اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر مبین اختر نے وی او اے سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے شہریوں کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور یہ صورتحال تقریباً معمول بن گئی ہے۔ عام آدمی کو معلوم نہیں کہ صبح روزگار کے لئے گھر سے نکلنے والا شخص واپس لوٹ پائے گا یا نہیں ۔ یہ صورتحال شہریوں کی کام کرنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے ۔

ان کا کہنا تھاکہ کراچی میں روز بروز بڑھتی ہوئی ہوئی پرتشدد کارروائیوں اور خون خرابہ ذہنی امراض میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے ۔ نیوز چینل پر دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر پرتشدد واقعات دیکھ دیکھ کربچے بھی مختلف نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہونے لگے ہیں جو خوفناک مستقبل کی طرف واضح اشارہ ہیں۔


عام شہری کیا کہتے ہیں

کراچی کے رہائشی شہر میں ہونے والے واقعات سے سخت پریشان ہیں۔ ایک بزرگ شہری حسنین خان وی او اے بات چیت کے دوران جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور آبدیدہ ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا "رات کے اندھیرے سے خوف آنے لگا ہے۔ کل رات نو بجے سے آج رات 9 بجے تک چوبیس افراد لقمہ اجل بن گئے یعنی ہر گھنٹے ایک لاش اٹھائی جارہی ہے۔ ماں باپ بڑھاپے میں جوان بچوں کے لاشے اٹھائیں کیا یہی ہے آج کا پاکستان؟؟؟ معصوم نوجوانوں کو بسوں اور گاڑیوں سے اتار اتار کر قتل کیا جارہا ہے ۔۔۔ ارے ایسا تو اس وقت ہی ہوا تھا جب 47 ء میں پاکستان بن رہا تھا اور ہندو مسلم فسادات ہورہے تھے،کیا اب پھر قربانیوں کا بازار لگے گا؟"

ایک اور شہری علی رضوی کا کہنا ہے "کراچی مختلف مذہبی، لسانی اور سیاسی وار لارڈز میں تقسیم ہوگیا ہے ۔ شہری اب بخوبی واقف ہیں کہ کون سا علاقہ کس تنظیم کے زیر اثر ہے ۔جس علاقے میں جس تنظیم کا زور چلتا ہے وہ وہاں اپنی مرضی کا راج چاہتی ہے۔ایک تنظیم کے ہمدرد دوسری تنظیم کے لوگوں کو اپنے علاقے میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اسی سبب شہر کے علاقے نو گو ایریاز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ شہر اسلحہ کے زور پر یرغمال بنا ہوا ہے اور عوامی نمائندوں کا یہ حال ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر دست و گریباں ہیں۔ یہ لوگ عوامی مسائل کیا حل کریں گے۔۔۔ میں تو اس وقت کو سوچ کر ہی لرز جاتا ہوں کہ جب شہر میں سورج ڈھلتے ہی شرپسندوں کا راج قائم ہونے لگے۔۔۔ اور کوئی شریف آدمی گھر سے باہر قدم نکالتے ہوئے بھی خوف زدہ ہونے لگے"۔