افغان صدر حامد کرزئی کی بدھ کو اسلام آباد آمد

افغان صدر حامد کرزئی کی بدھ کو اسلام آباد آمد

گذشتہ اگست میں افغانستان کے متنازع صدارتی انتخابات میں نئی مدت کے لیے ملک کا سربراہ منتخب ہونے کے بعدصدر حامد کرزئی پہلی مرتبہ سرکاری دورے پربد ھ کو پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ اسلام آباد میں وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق افغان صدر اپنے دو روزہ دورے میں پاکستانی ہم منصب آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقاتوں میں دو طرفہ ُامور پر بات چیت کریں گے۔

صدر کرزئی ایسے وقت پاکستان کا دور رہ کر رہے ہیں جب جنوبی افغان صوبے ہلمند کے مرکزی شہر مارجہ میں نیٹو اور مقامی فوجیں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف ایک بڑے آپریشن میں مصروف ہیں اور پاکستان سے ملحقہ قندھار صوبے میں بھی ایک ایسی ہی کارروائی شروع کرنے پر غور کیا جارہاہے۔ اس کے علاوہ افغان حکومت نے پر امن طالبان کے ساتھ مفاہمت کی کوششوں کو بھی تیز کر رکھا ہے ۔

افغان اور پاکستانی ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان نے جن اہم افغان طالبان کمانڈروں کو گرفتار کیا ہے ان کی حوالگی کا معاملہ بھی دونوں ملکو ں کی قیادت کے درمیان ہونے والی بات چیت میں زیر بحث آئے گا۔ خود صدر کرزئی نے اس ہفتے کابل میں امریکی وزیر دفاع کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں یہ انکشاف کیا تھا کہ افغانستان نے پاکستان میں زیر حراست طالبان کو ان کے ملک کے حوالے کرنے کی درخواست کر رکھی ہے۔

صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ وہ افغان جو طالبان تحریک کے ڈھانچے سے وابستہ ہیں اور پاکستان کی حراست میں ہیں، اُمید ہے کہ پاکستان انھیں افغانستان واپس بھیج دے گا۔ بقول صدر کرزئی کے کہ ان طالبان جنگجو کمانڈروں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور ان کے کیا حقوق ہیں اس کا فیصلہ افغانستان کے موجودہ قوانین کے تحت کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ جن اہم طالبان کمانڈروں کو پاکستان میں حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے ا ن میں ملا عبدالغنی برادر بھی شامل ہے جو افغان طالبان تحریک کا نائب کمانڈر ہے اور ملا عمر کا دست راست تھا۔ اس مشتبہ شدت پسند کمانڈر کو اطلاعات کے مطابق پاکستانی اور امریکی اہلکاروں نے مشترکہ کارروائی کر کے کراچی کے ایک علاقے سے گذشتہ ماہ گرفتار کیا تھا۔

حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی اور خارجہ اُمور کی پارلیمانی کمیٹی کی رکن پلوشہ بہر ام نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے میں افغان صدرحامد کرزئی پاکستان کے تعاون کے خواہاں ہوں گے ۔ اس کے علاوہ اُن کے بقول طالبان سے بات چیت کی ممکنہ حکمت عملی کے بارے میں بھی ممکنہ طور پر اس دورے کے دوران تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

پلوشہ بہرام کا یہ کہنا ہے کہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی پر پاکستانی تشویش سے افغان صدر کو اسلام آباد میں قیام کے دوران
آگا ہ کیا جائے گا۔ اُن کا یہ بھی ماننا ہے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی بات چیت اور اس دورے کے باہمی تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔