ایک حالیہ رپورٹ میں یہ سامنے آیا ہے کہ بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کے رہائشیوں کو سال 2022 میں ایران اور روس سمیت کسی بھی خطے کے مقابلے میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ بندش اور پابندیوں کا سامنا رہا۔
وائس آف امریکہ کے لیے بلال حسین کی رپورٹ کے مطابق لیتھونیا میں قائم ایک ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک کمپنی 'سرف شارک' کے مطابق تمام ویب بلیک آؤٹ کا پانچویں حصے سے زیادہ کشمیر میں ہوا۔
کمپنی کی سال 2022 میں انٹرنیٹ سینسر شپ پر عالمی رپورٹ جنوری کے وسط میں جاری کی گئی جس میں یہ سامنے آیا کہ 32 ممالک میں مجموعی طور پر 112 پابندیاں لگائی گئی جس میں زیادہ تر پابندیاں احتجاج یا بدامنی کے دوران دیکھنے میں آئیں۔
کشمیر کی درجہ بندی روس کے ساتھ ساتھ کی گئی ہے جہاں ماسکو نے یوکرین پر اپنے حملے کے دوران سوشل میڈیا اور خبروں تک رسائی کو معطل کیا وہیں ایران میں ستمبر میں بڑے پیمانے پر شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے دوران پابندیاں دیکھنے میں آئیں جب کہ بھارت میں بدامنی کے دوران سروسز میں تعطل دیکھنے میں آیا۔
SEE ALSO: بھارت: صحافی صدیق کپن دو سال بعد رہارپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر سب سے زیادہ انٹرنیٹ میں رکاوٹ ایشیا میں دیکھی گئی جہاں یہ تعداد دنیا بھر کے کیسز کا 47 فی صد ہے۔
رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک اندازے کے مطابق چار ارب 20 کروڑ لوگوں کو انٹرنیٹ سینسرشپ کا سامنا کرنا پڑا۔
کمپنی کا انٹرنیٹ سینسرشپ ٹریکر نیٹ بلاک اور ایکسز ناؤ جیسے نیوز میڈیا اور ڈیجیٹل رائٹس آرگنائزیشنز کی رپورٹس کا تجزیہ کرتا ہے اور کیسز کو دستاویز کرنے کے لیے سوشل میڈیا کمپنیز سے ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔
سرف شارک کی ترجمان نے نے وی او اے کو بتایا کہ کشمیر میں 2022 میں مجموعی طور پر 456 گھنٹے انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن رہا۔ ان کے بقول یہ تمام مقامی سطح پر انٹرنیٹ کی بندش کے کیسز تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارتی حکومت کی جانب سے 2019 میں کشمیر کی خصوصی خودمختاری کی حیثیت واپس لینے کے بعد سے وہاں انٹرنیٹ پر پابندی کا مسلسل سامنا رہا۔
خطے کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد کشمیر میں سب سے بڑا انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن پانچ اگست 2019 سے 25 جنوری 2020 تک رہا۔
جموں اور کشمیر کے محکمۂ داخلہ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ برس انٹرنیٹ معطلی کے 49 احکامات جاری کیے گئے۔
حکام کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں کا مقصد کشمیر میں سیکیورٹی سے متعلق واقعات اور سیاسی بدامنی کے تناظر میں 'غلط معلومات کو روکنے اور امن و امان برقرار رکھنے' کے لیے تھا۔
تاہم مقامی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کو خطے میں تنقیدی رپورٹنگ روکنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔
سرف شارک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ سینسرشپ کے نتیجے میں 'خطرناک اور نقصان دہ نتائج' نکل سکتے ہیں اور یہ آزادی اور جمہوریت 'حملہ' ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ جب لوگ انٹرنیٹ سے منقطع ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے لیے بات نہیں کرسکتے۔ لہٰذا یہ ان لوگوں پر منحصر ہے جن کے پاس مفت اور بلاتعطل انٹرنیٹ موجود ہے کہ وہ دنیا کو بتائیں کہ کیا ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ٹریکر اس پریشان کن مسئلے پر بیداری پیدا کرنے میں مدد کرے اور ایسی پالیسیوں کو روکنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ پیدا کرے۔
کشمیر میں موجود صحافیوں نے اس سے قبل وی او اے کو بتایا تھا کہ مواصلات کی بندش کے ساتھ ساتھ 2019 سے نافذ نئی میڈیا پالیسیوں نے بریکنگ نیوز کی کوریج اور معلومات تک رسائی یا حکام کے ردِعمل کو مشکل کردیا ہے۔
ان کے بقول بندش نے بالآخر ایسی فضا پیدا کی ہے جہاں غلط معلومات اور افواہیں پنپتی ہیں۔
ایک گلوبل ڈیجیٹل پرائیویسی اور ریسرچ آرگنائزیشن ٹاپ 10 وی پی این کے مطابق سال 2022 میں بھارت میں انٹرنیٹ بند ہونے کی لاگت کا تخمینہ 18 کروڑ 43 لاکھ ڈالر تھا۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں حریت کانفرنس کا مرکزی دفتر سیلمتواتر اور طویل انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن نے ذریعہ معاش بالخصوص کاروبار، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کو متاثر کیا۔ کمپنیاں آن لائن مارکیٹس تک رسائی سے قاصر تھیں جب کہ طلبہ آن لائن وسائل اور ورچوئل کلاسز تک رسائی سے قاصر تھے۔
سرینگر کے ایک مقامی انٹرپرینیور عرفان مشتاق نے وی او اے کو بتایا کہ طویل اور تواتر سے شٹ ڈاؤن نے انہیں اپنی سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ کمپنی کو بند کردیا اور نئے کاروبار کرنے پر مجبور ہوئے۔
یہی نہیں کشمیر میں عام صارفین بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک صارف اعجاز احمد نے وی او اے کو بتایا کہ اگر حکومت انٹرنیٹ بند ہونے کا حکم دیتی ہے تو انہیں ٹیلی کام کمپنیوں کو بھی ہدایت دینی چاہیے کہ وہ صارف سے ان سروسز کے لیے چارج نہ کریں جو وہ استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔