کرونا وائرس کی وبا سے پہلے جہاں لوگوں کی شادیوں اور خوشی کی دیگر تقریبات میں ناچ گا کر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے خواجہ سرا گزارا کر لیتے تھے۔ لیکن وبا کے بعد نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد علاقے میں شادیاں اور موسیقی کی محفلیں بند ہو چکی ہیں اور ان کا روزگار ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
اس صورت حال کے باعث خواجہ سراؤں کے پاس اپنا بیٹ بھرنے کے لیے آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود نہیں رہا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 19 برس کے خوشی میر نے اخراجات پورے کرنے کے لیے 15 دن تک محنت مزدوری کا کام کیا جس سے اس سے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔
بقول خوشی میر، ان کے پاس اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔
بھارت میں 2019 میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے لگائے گئے لاک ڈاؤن اور پھر اس کے بعد کرونا وائرس کی وبا کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھارتی زیر انتظام کشمیر کے خواجہ سرا کسی قسم کی آمدنی سے محروم ہو چکے ہیں۔
روزگار نہ ہونے کی وجہ سے کچھ خواجہ سراؤں نے ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ٹھانی۔ خوشی میر اور کچھ دوسرے رضاکاروں نے خواجہ سراؤں کے گھروں میں کھانا بانٹنا شروع کر دیا۔ انہوں نے تقریباً 220 ایسے افراد کو راشن کی فراہمی شروع کی جن میں میک اپ آرٹسٹ، گلوکار اور دیگر فنکار شامل ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے دیگر علاقوں کی طرح بھارتی زیر انتظام کشمیر میں خواجہ سراؤں کی زندگی آسان نہیں ہے۔ اکثر اپنے ہی خاندانوں سے دور ہیں اور معاشرہ انہیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔
اے پی کے مطابق ان میں سے بہت سوں نے اپنے گھروں میں جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے اور چھوٹی عمر میں یہ اپنے گھروں سے بھاگ آئے۔ کچھ چھتوں سے محروم ہیں، کچھ کے پاس تعلیم نہیں اور دوسری بنیادی ضرورتوں کے محتاج ہیں۔
یہ کشمیر کی متنازع وادی کی ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں، یہ علاقہ 1947 سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگوں کا مرکز رہا ہے۔
اس تنازع کے سائے میں رہتے ہوئے، اور وبا کے دوران پیدا ہونے والے بحران کے بعد بہت سے خواجہ سرا پہلے سے بھی زیادہ غریب ہو چکے ہیں۔
رشتے کرانے والی اور گلوکارہ چاندنی شیخ نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سب بھول گئے ہیں، انہیں سب نے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔