ثوبیہ خان کا شمار خیبر پختونخوا کے انتہائی متحرک اور تعلیم یافتہ خواجہ سراؤں میں ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر اُنہیں ضلعی مصالحتی کونسل میں شامل کیا گیا ہے۔
ضلعی مصالحتی کونسل کے ذریعے پشاور کے تمام تھانوں کی حدود میں لوگوں کے مابین تنازعات کو مشاورت سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس کونسل میں زندگی کے مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں۔ اس کونسل کے ارکان آپس میں مل بیٹھ کر لوگوں کے مختلف تنازعات اور شکایات کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ثوبیہ خان نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں بتایا کہ اُنہوں نے گریجویشن کی ہے اور وہ اب پشاور یونیورسٹی سے پشتو میں ماسٹرز کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والدین اور خاندان والوں کے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ جب کہ خاندان ہی کے تعاون سے انہوں نے معاشرے میں مقام حاصل کیا ہے۔
ثوبیہ خان نے دیگر خواجہ سراؤں کے والدین اور رشتہ داروں پر زور دیا کہ وہ بھی اپنے بچوں کو قبول کریں۔ ان کی سرپرستی کریں۔ اگر والدین اور رشتے دار ان خواجہ سرا بچوں کو نہیں اپناتے تو دیگر لوگ کس طرح اپنائیں گے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی ثوبیہ خان 'ٹرائبل نیوز نیٹ ورک' (ٹی این این) نامی ذرائع ابلاغ کے ایک مقامی ادارے سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس ادارے میں خبروں اور موسیقی کی پروڈکشن کرتی ہیں۔
ان کے بقول وہ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر میزبان کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دے رہی ہیں۔
پشاور میں ریڈیو اور ٹیلی وژن سے منسلک مختلف افراد نے ایک تنظیم 'خیبر پختونخوا براڈ کاسٹنگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن' قائم کی ہوئی ہے۔ ثوبیہ خان اسی تنظیم میں بھی فعال ہیں اور سیکریٹری ثقافت کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔
ثوبیہ خان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے معاشرے میں خواجہ سراؤں کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ خاندان والے بھی خواجہ سراؤں کو قبول نہیں کرتے۔
ان کے مطابق وہ اپنے آپ کو اس لحاظ سے خوش قسمت سجھتی ہیں کہ اُنہیں نہ صرف خاندان نے قبول کیا ہے بلکہ اُہیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا بھی حق دیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ثوبیہ خان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر خواجہ سرا تعلیم حاصل نہیں کر سکی ہیں جس کی وجہ سے اُنہیں ملازمت کے حصول میں مشکلات ہیں۔ خواجہ سراؤں کے تعلیم کے حصول کے لیے سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے حکومت اور اساتذہ سے اپیل کی کہ وہ خواجہ سرا بچوں کو اسی طرح تعلیم کے حصول میں معاونت کریں جس طرح دیگر بچوں کی مدد کی جاتی ہے۔
ان کے مطابق اس عمل سے ایک طرف تو خواجہ سراؤں میں احساس محرومی کا ازالہ ہو گا اور دوسرا انہیں معاشرہ قبول بھی کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سرا انسان ہیں۔ انہیں انسانوں کی طرح آزادی سے جینے کا حق دیا جائے۔
ثوبیہ خان نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے خلاف گزشتہ برسوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ جب بھی خواجہ سرا گھر سے نکلتے ہیں۔ تو انہیں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کے بقول نہ صرف سڑکوں اور بازاروں میں لوگ انہیں بری اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بلکہ موسیقی کے تقاریب میں شرکت کے بعد ان پر حملے بھی ہوتے ہیں۔
ثوبیہ خان نے کہا کہ مصالحتی کونسل میں نمائندگی ملنے سے ان کی کوشش ہے کہ ان لوگوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔ تاہم اس سلسلے میں خواجہ سراؤں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آپس میں متحد رہیں اور ازخود ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔