جرمنی کی وزیرِ خارجہ کے کشمیر پر بیان کے بعد بھارت کی جانب سے ایک بار پھر اس تنازعے کو دو طرفہ قرار دینے کے اپنے دیرینہ مؤقف پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ اعلیٰ مغربی عہدے دار کے بیان اور اقدامات کو پاکستان میں جہاں سفارتی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے وہاں بھارت کے زیرِ انتطام کشمیر میں بعض حلقے اسے اپنی تائید سے زیادہ عالمی حالات کا شاخسانہ سمجھتے ہیں۔
گزشتہ دنوں بون میں جرمنی کی وزیرِ خارجہ ایلانیا بیئر بوک نے اپنے پاکستانی ہم منصب وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اُن کا ملک اقوام متحدہ کی شمولیت سے مسئلہ کشمیر کے حل کی حمایت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خود اس کا بھی کشمیر میں پائی جانے والی صورتِ حال کے بارے میں ایک کردار اور ذمے داری ہے۔
اس سے چند روز قبل پاکستان میں امریکی سفیرڈونلڈ بلوم نے مظفر آباد کے دورے میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو 'اے جے کے' یعنی آزاد جموں و کشمیر کہا تھا۔
نئی دہلی میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جرمن اور پاکستانی وزرائے خارجہ کے بیانات کے ردِ عمل میں بھارت کے مؤقف کا اعادہ کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک دو طرفہ معاملہ ہے جس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت یا ثالثی کی کوئی گنجائش نہیں۔
باگچی کا کہنا تھا کہ عالمی برادری میں شامل تمام ایماندار ممالک کی ذمے داری ہے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گردی اور خاص طور پر سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ کریں۔
انہوں نے پاکستان کا برہِ راست نام لیے بغیر کہا تھا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیراور اس کے عوام نے کئی دہائیوں سے جاری تشدد اور ان کے بقول دہشت گردی کی وجہ سے تکلیف اٹھائی ہےاور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
واضح رہے بھارت پاکستان پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کی نہ صرف پشت پناہی کررہا ہے بلکہ اپنے علاقے سے وہاں اس کے بقول دہشت گردوں کے داخل ہونے کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔
پاکستان ان الزامات کی سختی کے ساتھ تردید کرتا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان سے نہیں صرف کشمیری نوجوانوں سے بات کریں گے: بھارتی وزیرِ داخلہپاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ بون میں پاکستان اور جرمنی کے وزرائے خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کشمیر پر دیے گئے بیان پر بھارت کے ریمارکس غیر ضروری ہیں۔ دراصل یہ ردِ عمل بھارت کی کشمیر پر ناجائز قبضے اورعلاقے میں اس کی بے رحم قابض افواج کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے عالمی برادری میں ہونے والی تنہائی پر مایوسی کو بے نقاب کرتا ہے۔
واضح رہے بھارتی حکومت نے پانچ اگست2019 کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کرکے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ان دو حصوں کو براہِ راست وفاق کے زیرِ انتظام علاقے بنادیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر کہلائے جانے والے علاقوں میں کئی انتظامی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
ناقدین اور پاکستان کے نزدیک ان اقدامات کا مقصد مسلم اکثریتی علاقے کی آبادی کو تبدیل کرنا اور اسے بھارت میں ضم کرنا ہے۔
پاکستان کی سفارتی کامیابی یا کچھ اور؟
بعض مبصرین اسلام آباد میں مقیم امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی طرف سے مظفر آباد کے دورے میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو اس کے سرکاری نام 'اے جے کے' یعنی 'آزاد جموں و کشمیر' سے پکارنے اور جرمن وزیرِ خارجہ کے کشمیر پر دے گیے اس حالیہ بیان کو کشمیر کے تنازع پر پاکستان کی سفارتی کامیابی قرار دیتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک 'دی ولسن سنٹر' کے جنوبی ایشیاء انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹراور سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگلمن اس خیال کی توثیق کرتے ہیں۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ کشمیر پر جرمنی کی وزیر خارجہ کے حالیہ تبصرے حیران کُن تھے۔ سینئر مغربی عہدے دار مسئلۂ کشمیر کو شاذ و نادر ہی بین الاقوامی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس میں جرمنی کی خارجہ پالیسی کے جھکاو کا خاصا عمل دخل ہے ۔
تاہم خود بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کئی لوگ یورپین اور مغربی ممالک کی حکومتوں کے ذمہ دار افراد اور سفارت کاروں کی طرف سے دیے جانے والے ان بیانات کو پاکستان کی سفارتی سطح پر کامیابی سے کہیں زیادہ خود ان ملکوں کے اپنے مفادات کے تابع سمجھتے ہیں۔
وادیٔ کشمیر کے ایک شہری عبدالمجید لون کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف امریکہ کا جھکاؤ اور اس کے بعض اتحادیوں کی کشمیر پر اسلام آباد کے مؤقف کی تائید کے بیانات کا مقصد دراصل بھارت پر دباؤ بڑھانا ہے جو یوکرین کے معاملے میں گومگو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔
کشمیر کی حمایت یا بھارت پر دباؤ
یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبۂ قانون و بین الاقومی تعلقات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ دراصل بھارت نے مغرب میں اپنا یہ امیج بنایا کہ وہ اس کا دوست ہے۔ اس تاثر کو عملی طور پر ثابت کرنے کے لیے روس کے یوکرین پر حملے کے بعد اسے امتحان کا سامنا تھا۔ لیکن بھارت مغربی ممالک کی خواہش کے باوجود روس کے خلاف نہیں کھڑا ہو پایا۔ اس لیے یہ ممالک بھارت سے خفا ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو یہ ممالک بوقتِ ضرورت استعمال کرتے ہیں اوروہ یہی کررہے ہیں۔ یہ جغرافیائی سیاست کا نتیجہ ہے۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں تین برس پہلے جو ہوا وہ بھی جیو پالیٹکس کا ہی نتیجہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے کافی عرصے تک امریکہ کو یہ باو کرایا کہ وہ چین کے خلاف اس کا ساتھی ہے ۔ اسی لئے ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوگئے تھے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے کشمیر کی نیم آئینی خود مختاری ختم کردی اور یہاں مزاحمت کو دبانے کے لیے لاک ڈاؤن کیا اور بین الاقوامی جانچ پڑتال سے بچ گیا۔
ان کے مطابق شاید مغرب اب دوسرے انداز سے سوچ رہا ہےاور سمجھتا ہے کہ بھارت اب اس کا قابلِ بھروسہ دوست نہیں رہا۔
مائیکل کوگلمن اس مفروضے کو رد کرتے ہیں ۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ مجھے نہیں لگتا ہے کہ یہ (جرمن وزیرِ خارجہ کا بیان) امریکی سفیر بلوم کے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے حالیہ دورے سے جڑا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ اسے یوکرین کے معاملے میں کشمیر کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی مغرب کی مربوط کوشش حصہ بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسی کوشش کی بھی گئی تو اس کا ناکام ہونا ناگزیر ہے۔ ہر چیز ایک سازش نہیں ہوتی۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہری کیا سوچتے ہیں؟
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے بعض شہری کشمیر پر مغربی سفارتکاروں اور حکومتی عہدے داروں کے حالیہ بیانات کو کشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے پانچ اگست 2019 کو کیے گئے اقدامات کے پس منظر میں دیکھتےہیں۔ان کے نزدیک یہ کشمیر کی تقسیم کو مستقل بنانے کے منصوبے کے لیے راہ ہموار کرنے کا ایک دانستہ عمل ہے۔
ان میں سے ایک شہری سجاد امین اس سلسلے میں بعض سیاست دانوں کے بیانات کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ ان سیاست دانوں میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ بھی شامل ہیں جو یہ کہہ چکے ہیں کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد مان کر کشمیر کا عملی حل ہوسکتا ہے۔ ماضی میں کشمیر کے دورے پر آنے والے بعض غیر ملکی سفیروں نے بھی اس تجویز کی تائید کی تھی۔