شاپنگ مال سے یرغمالیوں کو رہا کروائے جانے کے بعد حملہ آوروں کی شناخت کے بارے میں قیاس آرائیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ وزیر داخلہ جوزف اولے لنکو کا کہنا تھا کہ وہ تمام مرد تھے لیکن ان میں کچھ نے خواتین کا لباس پہن رکھا تھا۔
صومالی شدت پسند گروپ الشباب کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجو اب بھی کینیا کے شاپنگ مال میں موجود ہیں اور لوگوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔
انٹرنیٹ پر اپنے ’ٹوئٹر‘ پیغامات میں منگل کو اس گروپ نے کہا ’’وہ اب بھی نیروبی میں ویسٹ گیٹ شاپنگ مال میں موجود ہیں‘‘ اور ایک پیغام میں انھوں نے لکھا کہ یہاں ’’لاتعداد‘‘ لاشیں بھی پڑی ہیں۔
کینیا کی فوج نے کہا ہے کہ وہ شاپنگ مال میں ’’صفائی‘‘ کے لیے کارروائی کر رہی ہے جب کہ پولیس نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ الشباب کے ’’پروپیگنڈا‘‘ پر کان نہ دھریں۔
فوج کا کہنا ہے کہ کارروائی کے دوران اس کے تین اہلکار ہلاک اور 11 زخمی ہوئے۔
قبل ازیں حکام نے کہا تھا کہ فوج نے نیروبی کے اس شاپنگ مال کا مکمل کنٹرول سنبھالتے ہوئے وہاں سے تمام یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا ہے۔
سرکاری عہدیداروں کے مطابق فوج کی کارروائی کے دوران تین حملہ آور مارے گئے جب کہ کم ازکم دس مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
صومالیہ کے دہشت گرد گروپ الشباب نے نیروبی کے اس مصروف شاپنگ مال پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ شدت پسندوں نے ہفتے کو یہاں حملہ کر کے سینکڑوں افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
دہشت گردوں کی اس کارروائی کے دوران سرکاری طور پر 62 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جب ریڈ کراس کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 69 ہے۔
کینیائی حکام کے بقول حملہ آوروں میں مختلف شہریتوں کے جنگجو شامل تھے۔ وزیرخاجہ آمنہ محمد نے ’پی بی ایس نیوز آور‘ کو بتایا کہ حملہ آوروں میں دو یا تین صومالی نژاد یا عرب نژاد امریکی اور ایک برطانوی شہری شامل ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان بین روہڈز نے کہا ہے کہ امریکہ الشباب کی طرف سے اپنے شہریوں کو تنظیم میں بھرتی کیے جانے پر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے اور حکومت شاپنگ مال واقعے میں اپنے کسی شہری کے ملوث ہونے کی اطلاعات کا جائزہ لے رہی ہے۔
حملہ آوروں کی شناخت کے بارے میں قیاس آرائیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ وزیر داخلہ جوزف اولے لنکو کا کہنا تھا کہ وہ تمام مرد تھے لیکن ان میں کچھ نے خواتین کا لباس پہن رکھا تھا۔
مسٹر لنکو کے بیان کے برعکس ایک انٹیلی جنس اور دو فوجی اہلکاروں نے خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ مرنے والے حملہ آوروں میں سے ایک گوری خاتون تھی۔ اس سے بظاہر ان قیاس آرائیوں کو بھی تقویت مل سکتی ہے کہ یہ مطلوب خاتون لندن میں 2005ء میں خودکش حملے کرنے والوں میں سے ایک حملہ آور کی بیوہ تھی۔ اس حملے میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سمانتھا لیوتھویٹ نامی یہ خاتون برطانوی ذرائع ابلاغ ’’گوری بیوہ‘‘ کے نام سے پکاری جاتی رہی اور یہ کینیا میں ہوٹلوں اور ریستورانوں پر حملوں کی مبینہ منصوبہ بندی کرنے کے لیے مطلوب تھی۔ مرنے والی خاتون حملہ آور کے بارے میں انٹیلی جنس افسر کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتا کہ یہ لیوتھویٹ تھی یا نہیں۔
الشباب نے اس حملے کو صومالیہ میں کینیا کی فوجی مداخلت کا ردعمل قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ یہ فوجیں صومالیہ سے نکل جائیں۔ لیکن کینیا نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔
کینیا کی فوجیں دوسال قبل الشباب کے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں مدد کے لیے صومالیہ میں داخل ہوئی تھیں۔ الشباب اس ملک کو سخت گیر اسلامی ریاست بنانا چاہتی ہے اور اس تنظیم کے جنگجو اکثر سرحد پار کینیا میں بھی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
دریں اثناء امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اُنھوں نے کینیا کے صدر اوہورو کنیاٹا سے براہ راست گفتگو کی ہے، اور انھیں یقین دلایا کہ قانون کے نفاذ کے سلسلے میں ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔
مسٹر اوباما نے کینیا کی تعمیر نو کے بارے میں یقین کا اظہار کیا اور اس ملک کو افریقہ کی مستحکم ترین جمہوریت قرار دیا ہے۔
انٹرنیٹ پر اپنے ’ٹوئٹر‘ پیغامات میں منگل کو اس گروپ نے کہا ’’وہ اب بھی نیروبی میں ویسٹ گیٹ شاپنگ مال میں موجود ہیں‘‘ اور ایک پیغام میں انھوں نے لکھا کہ یہاں ’’لاتعداد‘‘ لاشیں بھی پڑی ہیں۔
کینیا کی فوج نے کہا ہے کہ وہ شاپنگ مال میں ’’صفائی‘‘ کے لیے کارروائی کر رہی ہے جب کہ پولیس نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ الشباب کے ’’پروپیگنڈا‘‘ پر کان نہ دھریں۔
فوج کا کہنا ہے کہ کارروائی کے دوران اس کے تین اہلکار ہلاک اور 11 زخمی ہوئے۔
قبل ازیں حکام نے کہا تھا کہ فوج نے نیروبی کے اس شاپنگ مال کا مکمل کنٹرول سنبھالتے ہوئے وہاں سے تمام یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا ہے۔
سرکاری عہدیداروں کے مطابق فوج کی کارروائی کے دوران تین حملہ آور مارے گئے جب کہ کم ازکم دس مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
صومالیہ کے دہشت گرد گروپ الشباب نے نیروبی کے اس مصروف شاپنگ مال پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ شدت پسندوں نے ہفتے کو یہاں حملہ کر کے سینکڑوں افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
دہشت گردوں کی اس کارروائی کے دوران سرکاری طور پر 62 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جب ریڈ کراس کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 69 ہے۔
کینیائی حکام کے بقول حملہ آوروں میں مختلف شہریتوں کے جنگجو شامل تھے۔ وزیرخاجہ آمنہ محمد نے ’پی بی ایس نیوز آور‘ کو بتایا کہ حملہ آوروں میں دو یا تین صومالی نژاد یا عرب نژاد امریکی اور ایک برطانوی شہری شامل ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان بین روہڈز نے کہا ہے کہ امریکہ الشباب کی طرف سے اپنے شہریوں کو تنظیم میں بھرتی کیے جانے پر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے اور حکومت شاپنگ مال واقعے میں اپنے کسی شہری کے ملوث ہونے کی اطلاعات کا جائزہ لے رہی ہے۔
حملہ آوروں کی شناخت کے بارے میں قیاس آرائیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ وزیر داخلہ جوزف اولے لنکو کا کہنا تھا کہ وہ تمام مرد تھے لیکن ان میں کچھ نے خواتین کا لباس پہن رکھا تھا۔
مسٹر لنکو کے بیان کے برعکس ایک انٹیلی جنس اور دو فوجی اہلکاروں نے خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ مرنے والے حملہ آوروں میں سے ایک گوری خاتون تھی۔ اس سے بظاہر ان قیاس آرائیوں کو بھی تقویت مل سکتی ہے کہ یہ مطلوب خاتون لندن میں 2005ء میں خودکش حملے کرنے والوں میں سے ایک حملہ آور کی بیوہ تھی۔ اس حملے میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سمانتھا لیوتھویٹ نامی یہ خاتون برطانوی ذرائع ابلاغ ’’گوری بیوہ‘‘ کے نام سے پکاری جاتی رہی اور یہ کینیا میں ہوٹلوں اور ریستورانوں پر حملوں کی مبینہ منصوبہ بندی کرنے کے لیے مطلوب تھی۔ مرنے والی خاتون حملہ آور کے بارے میں انٹیلی جنس افسر کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتا کہ یہ لیوتھویٹ تھی یا نہیں۔
الشباب نے اس حملے کو صومالیہ میں کینیا کی فوجی مداخلت کا ردعمل قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ یہ فوجیں صومالیہ سے نکل جائیں۔ لیکن کینیا نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔
کینیا کی فوجیں دوسال قبل الشباب کے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں مدد کے لیے صومالیہ میں داخل ہوئی تھیں۔ الشباب اس ملک کو سخت گیر اسلامی ریاست بنانا چاہتی ہے اور اس تنظیم کے جنگجو اکثر سرحد پار کینیا میں بھی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
دریں اثناء امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اُنھوں نے کینیا کے صدر اوہورو کنیاٹا سے براہ راست گفتگو کی ہے، اور انھیں یقین دلایا کہ قانون کے نفاذ کے سلسلے میں ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔
مسٹر اوباما نے کینیا کی تعمیر نو کے بارے میں یقین کا اظہار کیا اور اس ملک کو افریقہ کی مستحکم ترین جمہوریت قرار دیا ہے۔