شائد آپ کو معلوم ہے کہ مچھلی کی کھال، دیگر جانوروں کے چمڑے سے زیادہ پائیدار اور خوبصوت ہوتی ہے اور اس سے تیار ہونے والے ہینڈ بیگ، ہیٹ، جوتے اور دوسری مصنوعات فیشن کی دنیا میں بڑی قیمت پاتے ہیں۔
لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ امریکہ اور یورپ کی مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی مچھلی کی کھال کی مصنوعات کے لیے زیادہ تر خام مال براعظم افریقہ کا ایک غریب ملک کینیا فراہم کرتا ہے۔
کینیا میں مچھلی کی کھال تیار کرنے کے زیادہ تر مراکز وکٹوریہ جھیل کے گرد قائم ہیں۔
وکٹوریہ جھیل کا شمار نہ صرف افریقہ بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جھیلوں میں ہوتا ہے۔ تازہ پانیوں کی دنیا کی سب سے بڑی جھیل امریکی ریاست منی سوٹا کی لیک سپیرئیر ہے جب کہ اس کے بعد کینیا کی جھیل وکٹوریہ کا نمبر آتا ہے۔
وکٹوریہ جھیل کا رقبہ تقریباً 60 ہزار مربع کلومیٹر ہے اور معروف دریائے نیل اسی جھیل سے نکلتا ہے۔ اس جھیل میں بڑی مقدار میں تلاپیا اور پرچ اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ آس پاس مچھلی کے فارم بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ مچھلی کی پراسیسنگ، خرید و فروخت اور برآمد اس علاقے کے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
پراسسنگ کے بعد مچھلی کے گوشت کو مارکیٹ میں بھیجنے کے لیے پیک کر لیا جاتا ہے، جب کہ باقی ماندہ اشیا، جس کا بڑا حصہ کھال پر مشتمل ہوتا ہے، ضائع کر دیا جاتا ہے۔ انہیں مچھلی کا فضلہ کہا جاتا ہے۔
لیکن اب یہاں مچھلی کی کھال کی ٹینگ کر کے اس سے چمڑا بنایا جا رہا ہے جو دیکھنے میں دیدہ زیب اور استعمال میں پائیدار ہوتا ہے۔ اس سے تیار ہونے والے بیگ، جیکٹیں، پرس اور دوسری مصنوعات اپنی خوبصورتی اور مضبوطی کی وجہ سے اچھے دام پاتی ہیں۔
کسومو سے وائس آف امریکہ کے نمائندے جمعہ ماجنگا نے بتایا ہے کہ مچھلی کی کھال کو پراسس کرنے کے عمل یا ٹینگ میں مقامی پودوں کے اجزا استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ صنعت خواتین، نوجوانوں اور معذور افراد کو روزگار فراہم کر رہی ہے۔
وکٹوریہ جھیل کے کنارے کاجولو نام کا ایک گاؤں ہے۔یہاں نیوٹن اوینو مچھلی کی کھالوں کی پراسسنگ کرتے ہیں ۔ ان کے مرکز میں تیار ہونے والی کھالیں امریکہ اور یورپ کو برآمد کی جاتی ہیں۔
اوینو کہتے ہیں کہ مچھلی کے فضلے سے پیدا ہونے والی بو اور آلودگی علاقے کے ماحول کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ میں نے اس چیلنج سے نمٹنے اور اس سے پیسہ کمانے کا سوچا اور ایک کمپنی قائم کی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اس مکتبہ خیال سے تعلق رکھتا ہوں کہ ماحول کی آلودگی کے مسئلے کا حل صرف مقامی طور پر ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔اس کے لیے آپ کو باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
مچھلی کی کھال کی پراسیسنگ کی صنعت سے یہاں آمدنی کے نئے ذرائع پیدا ہوئے ہیں۔ اس صنعت سے وابستہ میکسمیلا اشنگ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے مچھلی کی کھال بےکار شے سمجھی جاتی تھی۔ ہم بس یہ کرتے تھے کہ اسے سوکھا کر لکڑی کے طور پر چولہے میں جلا لیتے تھے۔ کیونکہ ہمیں اس کے استعمال کا کوئی دوسرا طریقہ معلوم نہیں تھا۔ لیکن اب ہم اسے جوتے، بیلٹ ، جیکٹیں، بیگ اور دوسری چیزیں بنانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
سواحلی کے ایک جفت ساز فریڈرک اوکوما، اشنگ کے خیالات سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مچھلی کی کھال دیگر جانوروں کے چمڑے سے زیادہ اچھی اور پائیدار ہوتی ہے۔ اس سے اعلیٰ معیار کے جوتے بنتے ہیں جنہیں گاہک ترجیح دیتے ہیں۔
حکومت بھی اس نئی صنعت میں دلچسپی لے رہی ہے اور اس شعبے سے وابستہ افراد کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔ کسومو کاؤنٹی کی سیاحت، تجارت اور صنعت کی منسٹر فریدہ سلیم کہتی ہیں کہ ہم ان مراکز کو دیکھ رہے ہیں جہاں مچھلی کا فضلہ لایا جاتا ہے، اسے الگ الگ کیا جاتا ہے، وزن کیا جاتا ہے اور فروخت کیا جاتا ہے۔ جو لوگ ان مراکز میں مچھلی کا فضلہ لاتے ہیں انہیں اس کی ادائیگی کر دی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ کوئی ضائع کرنے والی چیز نہیں ہے۔ اس سے پیسہ ملتا ہے۔
اونیو نے بتایا کہ ان کی کمپنی کا مقصد وکٹوریہ جھیل کے کنارے ابھرنے والی مچھلیوں کی صنعت سے پیدا ہونے والے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے ساتھ ساتھ اور اس سے منافع حاصل کرنے کا مستقل ذریعہ پیدا کرنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم انگریزی زبان کے لفظ ایچ فور یعنی چار شعبوں کی ہیلتھ کے اصول کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ یعنی جانوروں کی صحت، پودوں کی صحت، ماحولیات کی صحت اور انسانی صحت۔
مچھلی کی کھال سے چلنے والی صنعت سے منسلک افراد کے لیے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے اور اس کی مانگ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی کھال تیار کی جا رہی ہے۔ اب ان کی توجہ اپنی پیداوار بڑھانے پر مرکوز ہے۔