داعش کے خلاف ’’خاصی پیش رفت‘‘ حاصل ہوئی ہے: کیری

فائل

’الحرہ‘ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں، امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ ’’داعش کے شدت پسند گروپ کی جانب سے عراق میں ہتھیائے گئے علاقے کا 44 فی صد، جب کہ شام کے علاقے کا تقریباً 16 فی صد واگزار کرا لیا گیا ہے۔‘‘

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ فوجی اتحاد کی جانب سے داعش کے خلاف جاری فوجی کارروائی میں ’’خاصی پیش رفت حاصل ہوئی ہے‘‘۔

جمعرات کے روز ’الحرہ‘ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں، اُنھوں نے بتایا کہ ’’داعش کے شدت پسند گروپ کی جانب سے عراق میں ہتھیائے گئے علاقے کا 44 فی صد، جب کہ شام کے علاقے کا تقریباً 16 فی صد واگزار کرا لیا گیا ہے۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ ’’اتحاد اِس بات کا کوشاں ہے کہ احتیاط سے اور آہستہ آہستہ، لیکن پختہ طور پر، پیش قدمی کی جائے، تاکہ واگزار کرائے گئے علاقے کو محفوظ بنانے کا کام دیرپہ ثابت ہو اور کسی طرح کی عجلت نہ برتی جائے‘‘۔

جان کیری نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں داعش کے خلاف 67 ممالک نبردآزما ہیں، جن کی یہ کوشش ہے کہ اس شدت پسند گروپ کے مالی وسائل تک رسائی بند ہو، بھرتی کے لیے اُس کی جانب نوجوان مائل نہ ہوں جب کہ سفر کے تمام ذرائع پر مستقل چوکسی رکھی جائے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ داعش کی پیش قدمی رک چکی ہے، اس کے وسائل تباہ ہوگئے ہیں یا سکڑ چکے ہیں؛ جب کہ میدانِ جنگ میں شدت پسند گروپ کے سرکردہ رہنما ہلاک کیے جاچکے ہیں‘‘۔


سعودی عرب کے بارے میں ایک سوال پر، کیری نے کہا کہ دو مقدس مساجد کے نگران کے طور پر، سعودی عرب کے شاہ سلمان ایک کلیدی مذہبی منسب کے مالک ہیں؛ اور بحیثیت ایک اتحادی کے، وہ داعش کے خلاف اپنا کام مؤثر انداز سے انجام دے رہے ہیں۔

ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ سعودی عرب شام کے بارے میں بین الاقوامی گروپ کا اہم رکن ہے، جس حیثیت سے وہ شام میں سیاسی حل کے لیے کوشاں ہیں۔
اُنھوں نے سعودی عرب پر زور دیا کہ داعش کے مالی وسائل میں کمی لانے کے کام میں مدد دینے کے حوالے سے ’’مزید کام کیا جائے‘‘ تاہم، بقول اُن کے، ’’سعودی عرب داعش کے خلاف لڑائی میں اہم پارٹنر ہے اور اپنا کام تندہی سے انجام دے رہا ہے‘‘۔
عراق میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، جان کیری نے کہا کہ امریکہ نے وزیر اعظم حیدر العبادی پر یہ بات واضح کردی ہے کہ عراقی حکومت میں سب کی شمولیت کا اصول مؤثر طور پر اپنایا جائے، تاکہ ملک میں استحکام کو فروغ ملے۔
اُن کے الفاظ میں، ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک عراقی کو ملک کی حکمرانی کے عمل میں شریک کیا جائے، تاکہ تناؤ میں کمی آئے اور نااتفاقیاں ختم ہوں‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ جمعرات کو نائب صدر جو بائیڈن بغداد پہنچے ہیں، جنھوں نے اعلیٰ ترین عراقی اہل کاروں کے ساتھ ملاقات کی ہے، اور اُنھوں نے حکومت میں سب کی شراکت داری پر زور دیا ہے، تاکہ درپیش اختلافات اور مسائل ختم ہوں۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ عرب نوجوان لیڈروں کو وہ کیا پیغام دینا چاہیں گے، تو کیری نے کہا کہ ’’یہ ایک نیک شگوں امر ہے کہ مشرق وسطیٰ میں نوجوان قیادت ابھر رہی ہے‘‘۔
اس سلسلے میں، اُنھوں نے سعودی عرب میں ولی عہد، محمد بن سلمان کا ذکر کیا، جو بقول اُن کے ’’مختلف محاذوں پر ڈٹ کر کام کر رہے ہیں، جن میں خاص طور پر معاشی شعبہ شامل ہے، جس کے بہتر نتائج برآمد ہونے لگے ہیں‘‘۔
اِسی طرح، کیری نے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زاید کا حوالہ دیا، اور کہا کہ ’’اُنھوں نے، اپنے بھائیوں کے ہمراہ، ملک کا رُخ ایک واضح نصب العین کی جانب موڑ دیا ہے؛ اور ترقی کے کئی منصوبے شروع کیے ہیں، جن میں توانائی کا شعبہ نمایاں ہے‘‘۔
ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ داعش اور القاعدہ کے خلاف لڑائی میں متحدہ عرب امارات ’’ایک مؤثر کردار ادا کر رہا ہے‘‘۔
ایک سوال پر کہ الحرہ نے ’ریز یوور وائس‘ نامی ایک پروگرام شروع کیا ہے، وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ ایک عمدہ کاوش ہے، جس میں شرکا، سامعین و ناظرین کو یہ موقع ملے گا کہ وہ قدامت پسند، اور پُرتشدد انتہا پسندی کے خلاف مؤثر خیالات کا اظہار کر سکیں۔
اُنھوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ اور دانشمند طبقے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قدامت پسندی اور پُرتشدد انتہا پسندی کے خلاف اپنی آواز بلند کرے، جس کاوش کے ذریعے ہی معاشرے میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور لوگوں کا انداز مثبت خطوط پر سنوارا جا سکتا ہے۔