امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ خصوصی کارروائی کی افواج کو شام روانہ کرنے کے صدر براک اوباما کے فیصلے کا مقصد محض داعش کے شدت پسندوں پر دھیان مرکوز رکھنا ہے، اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امریکہ شام کی خانہ جنگی میں کودنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔
کیری نے فوج تعینات کرنے کے صدر اوباما کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی پالیسی واضح ہے۔۔ ہم دولت اسلامیہ کے انتہاپسند گروپ کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ اُنھون نے شام میں امریکہ کے مزید ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا، یہ کہتے ہوئے کہ ہم مستقبل کی پیش گوئی نہیں کرسکتے۔
کیری نے یہ کلمات ہفتے کے روز قرغیزستان کے دارالحکومت بشکک میں اخباری کانفرنس کے دوران ادا کیے۔
وائٹ ہائوس نے کہا ہے کہ صدر نے 'اسپیشل آپریشنز فورسز' کے 50 سے بھی کم ارکان کو شمالی شام جانے کا اختیار دیا ہے، تاکہ داعش سے نبردآزما مخالف گروپوں کی مدد کی جاسکے۔
سنہ 2011کے اوائل، جب شام کی خانہ جنگی شروع ہوئی، یہ شام کی سرزمین پر پہلا امریکی فوجی دستہ ہوگا، جس سے قبل اُس نے ایک مخصوص مختصر چھاپے میں شرکت کی گئی تھی۔
اِس سے قبل موصول ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری پانچ وسط ایشیائی ملکوں کے دورے پر قرغیزستان کے دارالحکومت بشکک پہنچ گئے ہیں، ایسے میں جب انسانی حقوق کے گروپوں نےمطالبہ کیا ہے کہ دورے میں وہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے بارے میں ضرور آواز اٹھائیں۔
ایک دِن کے دورے پر، ہفتے کو کیری بشکک پہنچے جہاں سے وہ ایک ایک روز کے لیے ازبکستان، قزاقستان، تاجکستان اور ترکمانستان جائیں گے۔
امریکی اہل کاروں کے مطابق، دورے کا مقصد وسط ایشیائی ملکوں کو توانا امریکی تعلقات کی یقین دہانی کرانا ہے، ایسے میں جب اُن کے ہمسائے، روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ تاہم، کیری پر کسی قدر دبائو ہے کہ وہ سابق سویت جمہوریائوں کے اس گروپ کے اندر خامیوں کا برملا اظہار کریں۔
حقوقِ انسانی کے معاملات
امریکی سینیٹر بین کارڈن 'سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی' کے ایک اعلیٰ رُکن ہیں۔ اُنھوں نے جمعے کو ایک کھلے مراسلے میں کیری پر زور دیا ہے کہ اپنے دورے کے دوران وہ اِن ملکوں پر سیاسی قیدیوں کی رہائی پر زور دیں۔
اُنھوں نے کیری پر زور دیا کہ اِن ملکوں کے ہم منصبوں سے ملاقات میں وہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ جمہوری اقدار کی پاسداری کے ٹھوس عزم کا اعادہ کریں۔
امریکہ میں قائم 'ہیومن رائٹس واچ' نے بھی کیری پر زور دیا ہے کہ وہ اِن ملکوں کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر اپنی تشویش کا اظہار کریں، یہ کہتے ہوئے کہ غلط بنیادوں پر قید کیے گئے افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے، اذیت کے ہتھکنڈوں کے استعمال کے خاتمے پر زور دیا جائے اور دیگر کلیدی حقوق کی سربلندی کو یقینی بنانے کا وعدہ لیا جائے۔
اس سےقبل، اسی ہفتے'کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹس' نے کیری سے مطالبہ کیا تھا کہ سیاسی بنیادوں پر اور آن لائن سنسرشپ کے بہانے جیل میں ڈالے گئے صحافیوں کی حالت زار کو ذہن نشین کیا جائے، اور ابلاغ سے واسطہ رکھنے والے کارکنوں کے خلاف جسمانی تشدد پر آواز بلند کی جائے۔ 'سی پی جے' نے کہا ہے کہ اُس کی تحقیق بتاتی ہے کہ سویت عہد کے بعد والے دور میں اِن ملکوں میں آزادی صحافت کی صورت حال 'رفتہ رفتہ مزید بگڑتی چلی گئی ہے'۔