امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری اور اُن کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف نے ان تاثرات کا اظہار شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی لخدار براہیمی سے ملاقات کے بعد کیا۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری اور اُن کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کا کہنا ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق پروگرام کو بند کرنے کے سلسلے میں جنیوا میں ہونے والے مذاکرات خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے سیاسی تبدیلی کی کوششوں کو دوبارہ شروع کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
کیری نے کہا کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے سے متعلق ’’تعمیری‘‘ مذاکرات کا ایک حصہ وہ ’’ہوم ورک‘‘ بھی ہے جو اُنھیں اور سرگئی لاوروف کو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شام کے متحارب دھڑوں کو عبوری حکومت کے قیام کے لیے کانفرنس میں شمولیت پر راضی کیا جا سکے۔
’’ہم نے یہ ہوم ورک کرنے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کے قریب نیو یارک میں ملاقات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘‘
امریکی وزیر خاجہ نے کہا کہ ملاقات میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ آیا مجوزہ کانفرنس کے لیے تاریخ کا تعین ممکن ہے یا نہیں۔
لاوروف نے کہا کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے معاملے پر پیش رفت اس ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
’’شام کی جماعتوں کو مکمل اختیار کی حامل عارضی حکومت پر باہمی رضا مندی کا اظہار کرنا ہو گا۔‘‘
کیری اور لاوروف نے ان تاثرات کا اظہار شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی لخدار براہیمی سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔ لخدار براہیمی مجوزہ کانفرنس کے انعقاد کی کوششوں میں سرگرم ہیں، جسے ’’جنیوا ٹو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
کانفرنس کا انعقاد شام میں حزب مخالف میں پائے جانے والے تذبذب اور اس اجلاس میں شرکت کے لیے دیگر ممالک کے انتخاب پر اختلافات کی وجہ سے مسلسل تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔
کیری نے کہا کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے سے متعلق ’’تعمیری‘‘ مذاکرات کا ایک حصہ وہ ’’ہوم ورک‘‘ بھی ہے جو اُنھیں اور سرگئی لاوروف کو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شام کے متحارب دھڑوں کو عبوری حکومت کے قیام کے لیے کانفرنس میں شمولیت پر راضی کیا جا سکے۔
’’ہم نے یہ ہوم ورک کرنے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کے قریب نیو یارک میں ملاقات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘‘
امریکی وزیر خاجہ نے کہا کہ ملاقات میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ آیا مجوزہ کانفرنس کے لیے تاریخ کا تعین ممکن ہے یا نہیں۔
لاوروف نے کہا کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے معاملے پر پیش رفت اس ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
’’شام کی جماعتوں کو مکمل اختیار کی حامل عارضی حکومت پر باہمی رضا مندی کا اظہار کرنا ہو گا۔‘‘
کیری اور لاوروف نے ان تاثرات کا اظہار شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی لخدار براہیمی سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔ لخدار براہیمی مجوزہ کانفرنس کے انعقاد کی کوششوں میں سرگرم ہیں، جسے ’’جنیوا ٹو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
کانفرنس کا انعقاد شام میں حزب مخالف میں پائے جانے والے تذبذب اور اس اجلاس میں شرکت کے لیے دیگر ممالک کے انتخاب پر اختلافات کی وجہ سے مسلسل تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔