امریکی وزیر ِخارجہ جان کیری اور ایرانی ہم منصب کے درمیان ویانا میں ہونے والے تین روزہ مذاکرات بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہوگئے ہیں۔
ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کیا جانے والا مذاکرات کا یہ دور نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا اور اس سلسلے میں کوئی ٹھوس معاہدہ عمل میں نہیں لایا جا سکا۔
توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ نچلی سطح پر ابھی بھی ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے مذاکرات جاری رہیں گے۔
واضح رہے کہ ایران کو جوہری پروگرام کے حوالے سے کسی معاہدے یا ٹھوس نتیجے پر پہنچنے کے لیے 20 جولائی کی ڈیڈ لائن مقرر ہے۔
جان کیری نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام ِمتحدہ کی سیکورٹی کونسل کی جانب سے مجوزہ چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ایران کے نیوکلئیر پروگرام کے حوالے سے مذاکرات میں تھوڑی بہت پیش رفت تو ضرور ہوئی ہے، اور اس حوالے سے کسی معاہدے پر پہنچنا بھی ممکن ہے؛ مگر، فی الحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
جان کیری کے بقول، ’ہم سب اچھی نیت کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ لیکن، یہاں پر ایران اور باقی پانچ عالمی طاقتوں کے نمائندوں سے ہونے والی میری بات چیت کے بعد یہ واضح ہے کہ ابھی اس ضمن میں بہت کچھ ہونا باقی ہے‘۔
امریکی وزیر ِخارجہ نے ان شقوں کا ذکر نہیں کیا جن پر دونوں فریقوں میں ابھی تک اتفاق نہیں ہو پایا۔ تاہم، اخذ یہ کیا جا رہا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا ہوگا آیا ایران کتنی یورینیم افزودہ کر سکتا ہے اور اس پر پابندیاں کب تک لگی رہیں گی۔
ایران کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔
امریکی وزیر ِخارجہ جان کیری کا یہ کہنا تھا کہ ایران کو اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں آیا واقعی اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے، ایرانی وزیر ِخارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران چند سالوں کے لیے اپنا یورینیم افزودگی کا پروگرام منجمد کرنے کا تو ارادہ رکھتا ہے، مگر وہ اس میں کمی نہیں لانا چاہتا۔