امریکہ وزیر خارجہ جان کیری پیر کو اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔ یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب ایران کے متنازع جوہری پروگرام سے متعلق طویل المدت معاہدے پر اتفاق کی ڈیڈ لائن قریب آ رہی ہے۔
وزارت خارجہ کے ایک سینئیر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ویانا میں ہونے جا رہی اس ملاقات کا مقصد یہ ’’دیکھنا کہ آیا کچھ پیش رفت ہو سکتی ہے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ جان کیری چاہتے ہیں کہ ایک تفصیلی مذاکرات کر کے اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ ایران کس حد تک ’’سخت فیصلے کرے گا جو اُسے کرنے ہوں گے‘‘۔
اس سے قبل اتوار کو جان کیری کی اپنے یورپی ہم منصبوں کے ہمراہ ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ان ملکوں کے عہدیداروں کے درمیان بات چیت کا عمل جاری رہے گا، لیکن چھ عالمی طاقتوں اور تہران میں بنیادی اُمور پر اختلاف بدستور قائم ہے۔
اتوار کو دن بھر مذاکرات کے مختلف دور ہوئے، جب کہ رات کو جان کیری کی ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے دو گھنٹے طویل ملاقات ہوئی، تاہم اس کے بعد دونوں جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
اس سے قبل برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کا کہنا تھا ’’آج کے مذاکرات میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی لیکن میرے خیال میں وزرا کا اس طرح مل بیٹھنا اور تنازعات پر بات چیت کرنا اہم ہے۔ ہم اپنے عہدیداروں کو یہاں چھوڑے جا رہے ہیں کہ وہ آئندہ آنے والے دنوں میں بات چیت جاری رکھیں۔‘‘
جان کیری کی جنیوا آمد سے پہلے مذاکرات میں شامل امریکی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ تہران کا کچھ امور پر موقف ’’ناکافی اور ناقابل عمل‘‘ ہے۔
’’ورکنگ لیول‘‘ مذاکرات آئندہ اتوار تک جاری رہیں گے لیکن اعلیٰ سطح پر کوئی بڑی پیش رفت نا ہونے کے بعد کسی معاہدے کے طے پانے سے متعلق امکان بہت کم ہیں۔
ایران اور چھ ممالک کے گروپ یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی مذاکرات کی ڈیڈ لائن میں توسیع پر رضا مند ہو سکتے ہیں لیکن ابھی تک حکام بھی اس بارے میں بات نہیں کر رہے۔
مذاکراتی عمل کے خاتمے کی صورت میں ایران پر عالمی تعزیرات کو سخت کرنے کے بارے میں کام شروع ہو جائے گا اور اُمید کی جا رہی ہے کہ تہران اپنے جوہری پروگرام پر کام تیز کر دے گا۔