امریکی وزیر ِ خارجہ کا کہنا ہے کہ روس، شامی صدر بشار الاسد کو اپنے ہی لوگوں پر دہشت پھیلانے کی مہم کے قابل بنا رہا ہے۔
امریکی وزیر ِ خارجہ جان کیری کا یہ بیان ان کے ایشیائی ممالک کے دورے کے آخری پڑاؤ میں انڈونیشیاء سے سامنے آیا ہے۔
جان کیری نے رُوس پر جینیوا امن مذاکرات کی رُو سے شام کے تنازعے کا سیاسی حل نکالنے کے لیے مدد فراہم کرنے پر زور دیا۔
امریکی وزیر ِ خارجہ کا کہنا تھا کہ شام میں صدر اسد کی فوجیں ابھی بھی اپنے شہریوں پر بم برسا رہی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شامی حکومت ابھی بھی ملک میں تین سال سے جاری خانہ جنگی کا فوجی حل ڈھونڈنے پر بضد ہے۔
جان کیری کے الفاظ، ’مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شام یہ سب ایران کی مدد سے کر رہا ہے۔ شام کو حزب اللہ اور رُوس کی مدد حاصل ہے۔ رُوس کو شام کے مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے مگر روس شام کو مزید ہتھیار اور ایڈ فراہم کرکے بشار الاسد کی طاقت بڑھا رہا ہے‘۔
امریکی وزیر ِخارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شام کے تنازعے کے حل کے لیے اقوام ِ متحدہ میں عرب لیگ کے خصوصی ایلچی لخدر براہیمی کی جانب سے کی جانے والی کوششیں اب تک بظاہر اس لیے ناکام ہوئی ہیں کیونکہ روس نے شام کے بحران کے حوالے سے جینیوا میں طے پائے جانے والے مذاکرات کی عملداری کے لیے عملی اقدامات پر خاطر خواہ زور نہیں دیا۔
امریکی وزیر ِخارجہ کے الفاظ، ’روس کئی مواقع پر میرے ساتھ اس موقف پر ڈٹا دکھائی دیا کہ وہ شام میں عبوری حکومت کے قیام اور جینیوا ون میں طے پائے جانے والے معاہدے کی عملداری کے لیے پُر عزم ہے۔ مگر ہم نے اس سلسلے میں ابھی تک شام کی جانب سے کوئی واضح اور ٹھوس کاوشیں ہوتی نہیں دیکھی ہیں جس سے ہمیں اس ضمن میں خاطر خواہ نتائج حاصل ہو سکیں‘۔
دوسری جانب روسی وزیر ِ خارجہ سرگئی لاوروف کا کہنا تھا ہے کہ دراصل شام کی اپوزیشن اور ان کے حامیوں کی وجہ سے جن میں امریکہ بھی شامل ہے، یہ عمل التواء کا شکار ہے۔ ان دونوں فریقوں کا مطمع ِ نظر فقط شامی صدر کی اقتتدار سے علیحدگی کا غیر حقیقت پسندانہ خیال ہے۔
سرگئی لاوروف کے الفاظ، ’شام کے حوالے سے مذاکرات میں شامل وہ تمام فریق جو جینیوا مذاکرات میں اپوزیشن کی تائید کر رہے تھے اور جینیوا مذاکرات کی عملداری کی بات کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں فقط ایک ہی خیال تھا، شام میں اقتدار کی تبدیلی‘۔
روسی وزیر ِخارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شامی صدر کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکامی کے بعد شام کی اپوزیشن اب خاموش بیٹھی ہے۔
روسی وزیر ِخارجہ کا مزید کہنا تھا کہ، ’مختلف وجوہات کی بنا پر جینیوا مذاکرات کو پٹڑی سے ہٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پہلے امن مذاکرات کو کیمیائی ہتھیاروں کا جواز بنا کر پٹڑی سے اتارنے کی کاوش کی گئی۔ جب اس میں ناکامی ہوئی تو پھر انسانی حقوق کی پامالی کے مسئلے کو اچھالا گیا‘۔
ابھی تک شام کی حکومت اور شامی اپوزیشن نے امن مذاکرات پر دوبارہ بات کرنے پر حامی نہیں بھری ہے۔ دوسری طرف امریکی وزیر ِخارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو شام میں پُر تشدد کارروائیاں روکنے کے لیے کوئی سیاسی حل ڈھونڈنے کے لیے کوششیں تیز کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا تعین کرنا چاہیئے کہ ایسا کیونکر ممکن ہو سکے گا؟
امریکی وزیر ِ خارجہ کا کہنا تھا کہ شام میں صدر اسد کی فوجیں ابھی بھی اپنے شہریوں پر بم برسا رہی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شامی حکومت ابھی بھی ملک میں تین سال سے جاری خانہ جنگی کا فوجی حل ڈھونڈنے پر بضد ہے۔
واشنگٹن —