واشنگٹن —
امریکی وزیر خارجہ جان کیری، جو اِس وقت جنوبی کوریا کے دورے پر ہیں، جمعے کو بیجنگ روانہ ہوں گے، جہاں وہ چینی حکام سے بات چیت کریں گے، جو، بقول اُن کے، شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں کا پروگرام ترک کرنے پر آمادہ کرنے کے سلسلے میں کارآمد کام انجام دے سکتے ہیں۔
کیری نے جمعرات کو جنوبی کوریا کے صدر اور وزیر خارجہ سے ملاقات کی، جس سے قبل دونوں کوریائی ممالک نے سات برس کے عرصے کے بعد پہلی بار اعلیٰ سطحی ملاقات کی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان ہونے والے اِن مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
جنوبی کوریا نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں میں شرکت کرے گا، جس کے بارے میں شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا خاندان کے افراد کی ملاقات کے لیے کی جانے والی کوششوں میں حائل ہوگی۔
ایک مترجم کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے، جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ، یون بیونگ سین نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ شمالی کوریا پر دبائو جاری رکھا جائے۔
بقول اُن کے، ہماری سوچ یکساں ہے، اور وہ یہ کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مکالمے کے ساتھ ساتھ، اصولوں پر مبنی مئوثر دوطرفہ دبائو جاری رکھا جائے۔ اس سلسلے میں، جنوبی کوریا اور امریکہ کے مابین اتحاد کو مد نظر رکھتے ہوئے، ہم چین اور دیگر ممالک کے ساتھ کوششوں کو فروغ دیں گے، تاکہ شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی سمت میں پیش رفت حاصل ہو۔
کیری نے کہا کہ جوہری پروگرام پر مذاکرات کی طرف واپس آنے کے لیے، چین شمالی کوریا پر مثالی اور اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اُن کے بقول، 'چین کے مقابلے میں اور کوئی ملک شمالی کوریا پر زیادہ اثرانداز نہیں ہو سکتا، جس کا باعث یہ ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ چین کے وسیع تر تجارتی تعلقات ہیں'۔
کیری نے کہا کہ چین مدد کر رہا ہے، لیکن شمالی کوریا کو ایندھن اور بنکاری کی خدمات فراہم کرنے کے اہم ذریعے کے طور پر، وہ مزید معاونت فراہم کر سکتا ہے۔
مائیکل آسلن 'امریکن انٹرپرائیز انسٹی ٹیوٹ' کے تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، 'بین الاقوامی بات چیت کی عدم موجودگی میں، شمالی کوریا نے اپنی کچھ جوہری تنصیبات کو دوبارہ چالو کیا ہے، جس کے نتیجے میں صدر کِم جونگ اُن مزید خطرناک بن چکے ہیں'۔
بقول اُن کے،'کِم جونگ اِل کی شمالی کوریا کے مقابلے میں، ہمیں پتا نہیں چلتا کہ کِم جونگ اُن کے شمالی کوریا میں کیا ہو رہا ہے'۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ یہ بات پریشان کُن ہے، اور ہمارے علم میں آنے والی تمام تر باتوں سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ معاملات مزید بگاڑ اور خطرے کا باعث بنتے جارہے ہیں۔
لائو گُڈمن، امریکن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کام مشکل تر بنتا جا رہا ہے آیا صدر کِم سے کس طرح سے رابطہ کیا جائے۔
کیری نے کہا کہ شمالی کوریا کے صدر کے انکل کو موت کی سزا دیے جانے کے بعد، چین عدم استحکام میں اضافے سے متعلق امریکی تشویش سے متفق نظر آتا ہے، جو چین کے ایک قریبی اتحادی تھے۔
آسلن نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جسے امریکہ اور چین مکمل طور پر سمجھ نہیں پائے۔
جمعرات کو صدر پارک گیون ہوئی کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں، کیری نے جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان تنائو میں کمی لانے کی کوشش کی، جو ایک متنازع جزیرے پر مچھلی کے شکار کے حقوق سے متعلق دونوں کے دعوے پر مبنی ہے، اور جس میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر مل سکتے ہیں۔
کیری نے جمعرات کو جنوبی کوریا کے صدر اور وزیر خارجہ سے ملاقات کی، جس سے قبل دونوں کوریائی ممالک نے سات برس کے عرصے کے بعد پہلی بار اعلیٰ سطحی ملاقات کی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان ہونے والے اِن مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
جنوبی کوریا نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں میں شرکت کرے گا، جس کے بارے میں شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا خاندان کے افراد کی ملاقات کے لیے کی جانے والی کوششوں میں حائل ہوگی۔
ایک مترجم کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے، جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ، یون بیونگ سین نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ شمالی کوریا پر دبائو جاری رکھا جائے۔
بقول اُن کے، ہماری سوچ یکساں ہے، اور وہ یہ کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مکالمے کے ساتھ ساتھ، اصولوں پر مبنی مئوثر دوطرفہ دبائو جاری رکھا جائے۔ اس سلسلے میں، جنوبی کوریا اور امریکہ کے مابین اتحاد کو مد نظر رکھتے ہوئے، ہم چین اور دیگر ممالک کے ساتھ کوششوں کو فروغ دیں گے، تاکہ شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی سمت میں پیش رفت حاصل ہو۔
کیری نے کہا کہ جوہری پروگرام پر مذاکرات کی طرف واپس آنے کے لیے، چین شمالی کوریا پر مثالی اور اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اُن کے بقول، 'چین کے مقابلے میں اور کوئی ملک شمالی کوریا پر زیادہ اثرانداز نہیں ہو سکتا، جس کا باعث یہ ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ چین کے وسیع تر تجارتی تعلقات ہیں'۔
کیری نے کہا کہ چین مدد کر رہا ہے، لیکن شمالی کوریا کو ایندھن اور بنکاری کی خدمات فراہم کرنے کے اہم ذریعے کے طور پر، وہ مزید معاونت فراہم کر سکتا ہے۔
مائیکل آسلن 'امریکن انٹرپرائیز انسٹی ٹیوٹ' کے تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، 'بین الاقوامی بات چیت کی عدم موجودگی میں، شمالی کوریا نے اپنی کچھ جوہری تنصیبات کو دوبارہ چالو کیا ہے، جس کے نتیجے میں صدر کِم جونگ اُن مزید خطرناک بن چکے ہیں'۔
بقول اُن کے،'کِم جونگ اِل کی شمالی کوریا کے مقابلے میں، ہمیں پتا نہیں چلتا کہ کِم جونگ اُن کے شمالی کوریا میں کیا ہو رہا ہے'۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ یہ بات پریشان کُن ہے، اور ہمارے علم میں آنے والی تمام تر باتوں سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ معاملات مزید بگاڑ اور خطرے کا باعث بنتے جارہے ہیں۔
لائو گُڈمن، امریکن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کام مشکل تر بنتا جا رہا ہے آیا صدر کِم سے کس طرح سے رابطہ کیا جائے۔
کیری نے کہا کہ شمالی کوریا کے صدر کے انکل کو موت کی سزا دیے جانے کے بعد، چین عدم استحکام میں اضافے سے متعلق امریکی تشویش سے متفق نظر آتا ہے، جو چین کے ایک قریبی اتحادی تھے۔
آسلن نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جسے امریکہ اور چین مکمل طور پر سمجھ نہیں پائے۔
جمعرات کو صدر پارک گیون ہوئی کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں، کیری نے جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان تنائو میں کمی لانے کی کوشش کی، جو ایک متنازع جزیرے پر مچھلی کے شکار کے حقوق سے متعلق دونوں کے دعوے پر مبنی ہے، اور جس میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر مل سکتے ہیں۔