کیری نے کہا کہ واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی قومی سلامتی اور اپنے شہریوں کی شخصی آزادیوں کے تحفظ کے مابین توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
واشنگٹن —
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ ان کا ملک جاسوسی سے متعلق اتحادی ممالک کے خدشات دور کرنے کے لیے متعلقہ ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں پولش وزیرِاعظم اور دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی 'این ایس اے' کی جانب سے یورپی ممالک کی جاسوسی کیے جانے سے متعلق حالیہ انکشافات پر اتحادی حکومتوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
جناب کیری نے کہا کہ واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی قومی سلامتی اور اپنے شہریوں کی شخصی آزادیوں کے تحفظ کے مابین توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کوششوں کی کامیابی کی صورت میں فریقین کے درمیان بداعتمادی دور ہوگی اور انٹیلی جنس کے میدان میں تعاون بڑھے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ پولش رہنماؤں کے ساتھ ان کی بات چیت میں شام کا بحران اور امریکہ کی جانب سے مختلف ممالک کی جاسوسی کے حالیہ انکشافات کا معاملہ سرِ فہرست رہا۔
امریکی ہم منصب سے ملاقات کے بعد پولینڈ کے وزیرِ خارجہ ریڈوسلو سکروسکی نے صحافیوں کو بتایا کہ ملاقات میں دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔
پولش وزیرِ خارجہ نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق، بنیادی قواعد اور تسلیم شدہ طریقہ کار کی بھی پاسداری کی جائے تاکہ عام شہری خود کو محفوظ تصور کریں اور بین الاقوامی اتحاد خطرے سے دوچار نہ ہوں۔
پولش وزیرِ خارجہ نے اپنی گفتگو میں نے 'این ایس اے' کے سابق جزوقتی ملازم ایڈورڈ سنوڈن کا بھی حوالہ دیاجنہوں نے پہلے پہل امریکی ایجنسی کی جانب سے عالمی رہنماؤں اور عام شہریوں کی ٹیلی فون کالوں اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی نگرانی کا انکشاف کیا تھا۔
سنوڈن رواں برس کے آغاز میں امریکہ سے فرار ہوکر ہانگ کانگ پہنچے تھےجس کے بعد انہوں نے امریکی خفیہ ادارے کے جاسوسی سے متعلق منصوبوں اور کاروائیوں کی تفصیل صحافیوں کو فراہم کی تھی۔ وہ اس وقت عارضی سیاسی پناہ پر روس میں مقیم ہیں جب کہ امریکہ میں ان کے خلاف "ریاست سے غداری" کے الزام میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔
سنوڈن کے انکشافات کے بعد 'این ایس اے' اور امریکہ کو اپنے اتحادی یورپی ممالک کی سخت برہمی اور ناراضی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو امریکی ایجنسی کی جانب سے اپنے سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں کی جاسوسی کرنے پر برانگیختہ ہیں۔
پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں پولش وزیرِاعظم اور دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی 'این ایس اے' کی جانب سے یورپی ممالک کی جاسوسی کیے جانے سے متعلق حالیہ انکشافات پر اتحادی حکومتوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
جناب کیری نے کہا کہ واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی قومی سلامتی اور اپنے شہریوں کی شخصی آزادیوں کے تحفظ کے مابین توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کوششوں کی کامیابی کی صورت میں فریقین کے درمیان بداعتمادی دور ہوگی اور انٹیلی جنس کے میدان میں تعاون بڑھے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ پولش رہنماؤں کے ساتھ ان کی بات چیت میں شام کا بحران اور امریکہ کی جانب سے مختلف ممالک کی جاسوسی کے حالیہ انکشافات کا معاملہ سرِ فہرست رہا۔
امریکی ہم منصب سے ملاقات کے بعد پولینڈ کے وزیرِ خارجہ ریڈوسلو سکروسکی نے صحافیوں کو بتایا کہ ملاقات میں دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔
پولش وزیرِ خارجہ نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق، بنیادی قواعد اور تسلیم شدہ طریقہ کار کی بھی پاسداری کی جائے تاکہ عام شہری خود کو محفوظ تصور کریں اور بین الاقوامی اتحاد خطرے سے دوچار نہ ہوں۔
پولش وزیرِ خارجہ نے اپنی گفتگو میں نے 'این ایس اے' کے سابق جزوقتی ملازم ایڈورڈ سنوڈن کا بھی حوالہ دیاجنہوں نے پہلے پہل امریکی ایجنسی کی جانب سے عالمی رہنماؤں اور عام شہریوں کی ٹیلی فون کالوں اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی نگرانی کا انکشاف کیا تھا۔
سنوڈن رواں برس کے آغاز میں امریکہ سے فرار ہوکر ہانگ کانگ پہنچے تھےجس کے بعد انہوں نے امریکی خفیہ ادارے کے جاسوسی سے متعلق منصوبوں اور کاروائیوں کی تفصیل صحافیوں کو فراہم کی تھی۔ وہ اس وقت عارضی سیاسی پناہ پر روس میں مقیم ہیں جب کہ امریکہ میں ان کے خلاف "ریاست سے غداری" کے الزام میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔
سنوڈن کے انکشافات کے بعد 'این ایس اے' اور امریکہ کو اپنے اتحادی یورپی ممالک کی سخت برہمی اور ناراضی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو امریکی ایجنسی کی جانب سے اپنے سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں کی جاسوسی کرنے پر برانگیختہ ہیں۔