امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے توقع ظاہر کی ہے کہ شام مجوزہ امن کانفرنس میں حصہ لے گا اگرچہ کہ شامی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ بات چیت اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کے مقاصد میں صدر بشار الاسد کی اپنے عہدے سے دست برداری بھی شامل ہے۔
مسٹر کیری نے منگل کو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے موقف کو دہرایا کہ شام کے بحران کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ شام کی حکومت مذاکرات کے اپنے وعدے کی پاسداری کرے گی۔
’’مجھے امید ہے کہ شام کی حکومت، روس اور ایران اور اس حکومت کے دیگر حامی اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ شامی حکومت ملک میں جاری بحران کے پرامن حل کے لیے جنیوا میں مذاکرات میں شرکت کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرے گی۔ ہمارے ساتھ دوسرے لوگ بھی یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ ہم وہاں ہوں گے اور حزب مخالف بھی۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس بات چیت کا ہمیشہ سے یہی مقصد رہا کہ فریقین مکمل انتظامی اختیارات والی عبوری حکومت پر متفق ہوں جو شام کے عوام کو اپنے وسیع تر مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دے۔
اس مجوزہ کانفرنس کے انعقاد کے لیے اس کے طریقہ کار پر اختلافات کے باعث تاحال کوئی حتمی تاریخ طے نہیں کی جا سکی ہے۔
پیر کو شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے وزیر اطلاعات کے بیان پر مبنی خبر میں کہا تھا کہ حکومت ایسی کسی امن بات چیت میں حصہ نہیں لے گی جس کی شرائط میں صدر بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی شامل ہو۔
دریں اثناء شام کی حزب مخالف کے ارکان اس بات پر مُصر ہیں کہ وہ مذاکرات میں اس وقت تک شرکت نہیں کریں گے جب کہ مسٹر اسد کی اقتدار سے رخصتی کا واضح منصوبہ سامنے نہیں آتا۔
منگل ہی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پہلی بار شام میں جاری کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔
اس مشن کے سربراہ سگریڈ کاگ بند کمرے میں سلامتی کونسل کے نمائندوں کو بریفنگ دیں گے۔ معائنہ کار یہ کہہ چکے ہیں کہ کیمیائی ہتھیار تیار کرنے کی شام کی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
شام کی حکومت کو 15 نومبر تک یہ منصوبہ پیش کرنا ہے کہ وہ کس طرح اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے موجودہ ذخیرے کو آئندہ سال کے وسط تک تلف کرے گا۔
مسٹر کیری نے منگل کو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے موقف کو دہرایا کہ شام کے بحران کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ شام کی حکومت مذاکرات کے اپنے وعدے کی پاسداری کرے گی۔
’’مجھے امید ہے کہ شام کی حکومت، روس اور ایران اور اس حکومت کے دیگر حامی اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ شامی حکومت ملک میں جاری بحران کے پرامن حل کے لیے جنیوا میں مذاکرات میں شرکت کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرے گی۔ ہمارے ساتھ دوسرے لوگ بھی یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ ہم وہاں ہوں گے اور حزب مخالف بھی۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس بات چیت کا ہمیشہ سے یہی مقصد رہا کہ فریقین مکمل انتظامی اختیارات والی عبوری حکومت پر متفق ہوں جو شام کے عوام کو اپنے وسیع تر مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دے۔
اس مجوزہ کانفرنس کے انعقاد کے لیے اس کے طریقہ کار پر اختلافات کے باعث تاحال کوئی حتمی تاریخ طے نہیں کی جا سکی ہے۔
پیر کو شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے وزیر اطلاعات کے بیان پر مبنی خبر میں کہا تھا کہ حکومت ایسی کسی امن بات چیت میں حصہ نہیں لے گی جس کی شرائط میں صدر بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی شامل ہو۔
دریں اثناء شام کی حزب مخالف کے ارکان اس بات پر مُصر ہیں کہ وہ مذاکرات میں اس وقت تک شرکت نہیں کریں گے جب کہ مسٹر اسد کی اقتدار سے رخصتی کا واضح منصوبہ سامنے نہیں آتا۔
منگل ہی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پہلی بار شام میں جاری کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔
اس مشن کے سربراہ سگریڈ کاگ بند کمرے میں سلامتی کونسل کے نمائندوں کو بریفنگ دیں گے۔ معائنہ کار یہ کہہ چکے ہیں کہ کیمیائی ہتھیار تیار کرنے کی شام کی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
شام کی حکومت کو 15 نومبر تک یہ منصوبہ پیش کرنا ہے کہ وہ کس طرح اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے موجودہ ذخیرے کو آئندہ سال کے وسط تک تلف کرے گا۔