اس برس ورلڈ اکنامک فورم کے ایجنڈے میں ایران، شام اور عالمی معیشت جیسے موضوعات زیر ِ بحث آئیں گے۔
واشنگٹن —
امریکی وزیر ِ خارجہ جان کیری جمعے کے روز سوئٹزرلینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کر رہے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم میں دنیا بھر سے 30 سے زائد ملکوں کے سربراہان شرکت کر رہے ہیں جن میں ایران کے صدر حسن روحانی بھی شامل ہیں۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے 2,500 سے زائد مندوب بھی شرکت کر رہے ہیں۔
اس برس ورلڈ اکنامک فورم کے ایجنڈے میں ایران، شام اور عالمی معیشت جیسے موضوعات زیر ِ بحث آئیں گے۔
اس سے قبل امریکی وزیر ِخارجہ شام سے متعلق امن کانفرنس میں شرکت کے بعد جمعرات کے روز سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس پہنچے۔
عربی اخبار العریبیہ سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر ِ خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت پر ایران کی سرزنش کی ہے۔
جان کیری کے الفاظ، ’ایران یہ سمجھتا ہے کہ جینیوا میں شام سے متعلق ہونے والے پہلے امن مذاکرات کی رُو سے شام میں باہمی رضامندی سے عبوری حکومت قائم ہونی چاہیئے۔ ایران چاہتا تو شام کانفرنس میں شرکت کر سکتا تھا مگر ایران نے ایسا نہیں کیا‘۔
جان کیری کی جانب سے ایران سے متعلق یہ رائے ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب ایرانی صدر اپنے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کاوشیں کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ایران عالمی سطح پر بہت سی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ اُن کی حکومت نے مغربی دنیا سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے چند بڑے اقدامات اٹھائے ہیں۔
حسن روحانی کے الفاظ، ’گذشتہ ماہ ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات بہتر ہونے سے دونوں ممالک ایک نئے دور میں داخل ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے سیاستدانوں کے درمیان ایک عرصے بعد رابطہ بحال ہوا ہے اور انہوں نے مختلف معاملات پر اظہار ِ رائے کیا ہے اور جوہری پروگرام کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے فیصلے کیے ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد یہ بہت بڑی تبدیلی ہے‘۔
ورلڈ اکنامک فورم میں دنیا بھر سے 30 سے زائد ملکوں کے سربراہان شرکت کر رہے ہیں جن میں ایران کے صدر حسن روحانی بھی شامل ہیں۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے 2,500 سے زائد مندوب بھی شرکت کر رہے ہیں۔
اس برس ورلڈ اکنامک فورم کے ایجنڈے میں ایران، شام اور عالمی معیشت جیسے موضوعات زیر ِ بحث آئیں گے۔
اس سے قبل امریکی وزیر ِخارجہ شام سے متعلق امن کانفرنس میں شرکت کے بعد جمعرات کے روز سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس پہنچے۔
عربی اخبار العریبیہ سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر ِ خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت پر ایران کی سرزنش کی ہے۔
جان کیری کے الفاظ، ’ایران یہ سمجھتا ہے کہ جینیوا میں شام سے متعلق ہونے والے پہلے امن مذاکرات کی رُو سے شام میں باہمی رضامندی سے عبوری حکومت قائم ہونی چاہیئے۔ ایران چاہتا تو شام کانفرنس میں شرکت کر سکتا تھا مگر ایران نے ایسا نہیں کیا‘۔
جان کیری کی جانب سے ایران سے متعلق یہ رائے ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب ایرانی صدر اپنے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کاوشیں کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ایران عالمی سطح پر بہت سی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ اُن کی حکومت نے مغربی دنیا سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے چند بڑے اقدامات اٹھائے ہیں۔
حسن روحانی کے الفاظ، ’گذشتہ ماہ ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات بہتر ہونے سے دونوں ممالک ایک نئے دور میں داخل ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے سیاستدانوں کے درمیان ایک عرصے بعد رابطہ بحال ہوا ہے اور انہوں نے مختلف معاملات پر اظہار ِ رائے کیا ہے اور جوہری پروگرام کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے فیصلے کیے ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد یہ بہت بڑی تبدیلی ہے‘۔