امریکہ میں ہر چار سال کے بعد 20 جنوری کو ایک شان دار اور باوقار تقریب دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع کیپیٹل ہل کے مغربی حصے پر منعقد ہوتی ہے، جس میں نئے یا دوبارہ منتخب ہونے والے صدر حلف اٹھاتے ہیں۔ اس سال بھی یہ تقریب ہو رہی ہے جس میں 46 ویں منتخب صدر جو بائیڈن اور ان کی نائب کاملا ہیرس اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے۔
مگر اس بار اس تقریب کا رنگ کچھ مختلف ہے۔ چند روز پہلے کیپٹل ہِل پر جو ہنگامہ ہوا تھا اس کے بعد کسی ناخوش گوار واقعے سے نمٹنے کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے ہیں اور ایک عام آدمی کا شہر میں داخلہ تقریباً ناممکن ہے۔ یہ سب کچھ غیر معمولی ہے جس کی امریکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
ایسے میں مجھے سابق صدر براک اوباما کی پہلی تقریبِ حلف برداری یاد آ رہی ہے جو امریکہ اور شاید پوری دنیا کی تاریخ کی چند خوب صورت ترین تقاریب میں سے ایک تھی۔ میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے اس تقریب کی لائیو نشریات کے دوران اس پر رواں تبصرے کے لیے مجھے چنا تھا۔
اس نشریے میں میری معاونت کر رہی تھیں میری ایک پرانی ساتھی مہوین اعظم جو ایک بہت عمدہ آواز و انداز کی مالک تھیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ساتھی اسد حسن کو واشنگٹن ڈی سی سے دور وائس آف امریکہ کے ایک ٹرانسمیٹر پر بھیجا گیا تھا کہ کسی ایمرجنسی بریک ڈاؤن کی صورت میں وہ وہاں سے نشریات سنبھال لیں۔
پاکستان میں تو ریڈیو اور ٹی وی کے دور میں کئی مواقع آئے جب ہم نے 23 مارچ اور 14 اگست کو قومی دنوں کی تقریبات میں میزبانی اور رواں تبصرے کیے۔ خاص طور پر ہر 23 مارچ کو ریس کورس گراؤنڈ میں ہونے والی اس شان دار فوجی پریڈ کی میزبانی جس کی سلامی اس وقت کے صدر ضیاء الحق لیتے تھے۔ ہمارا پرجوش تبصرہ نہ صرف فوجیوں کے دلوں کو گرماتا بلکہ خود صدر ضیاء بھی اتنا محظوظ ہوتے کہ پریڈ کے فوراً بعد اپنے گھر پر چائے کی دعوت دیتے اور نہ صرف زبانی تعریف کرتے بلکہ بعد میں تحریری اسناد بھی بھیجتے۔
لیکن وائس آف امریکہ میں آنے کے بعد صدر اوباما کی تقریبِ حلف برداری پر تبصرے کی یہ سب سے بڑی ذمہ داری تھی جو مجھے سونپی گئی تھی اور میں اندر ہی اندر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔
احکامات ملتے ہی میں نے تیاری شروع کر دی اور پرانے تجربات کے پیشِ نظر ایک اسکرپٹ یعنی مسودے پر کام کا آغاز کیا۔ اس کے لیے پورے پروگرام کی کاپی حاصل کر لی اور لمحہ بہ لمحہ اس کی تفصیلات اور اعلانات لکھ لیے۔ جہاں وقفہ طویل ہوتا وہاں منظر کشی کا سہارا لیا۔ اس کے علاوہ کچھ تاریخی معلومات اس بارے میں حاصل کر لیں۔ اس طرح ایک ضخیم مسودہ تیار ہو گیا۔ ایک کاپی اپنی ساتھی مہوین کے حوالے کی کہ وہ اپنے اعلانات کو پڑھ لیں اور نشان لگا لیں۔ اس کام میں کئی دن لگ گئے۔ تاریخی حوالوں کی تصدیق کے لیے مسودہ کچھ سینئر ساتھیوں کو دکھا دیا کہ کہیں کوئی سقم نہ رہ جائے۔
اب انتظار تھا اس بڑے دن کا۔ وقت کاٹنا مشکل ہو رہا تھا۔ خدا خدا کر کے وہ دن آ پہنچا۔ لیکن خبریں یہ آ رہی تھیں کہ چوں کہ ایک بہت بڑی تقریب ہونی ہے اور لوگوں کا ایک جمِّ غفیر ہو گا، اس لیے خصوصی انتظامات کرنے ہوں گے۔
پہلے سے ساری ہدایات جاری ہو گئیں کہ گاڑی پر نہیں آنا۔ بس یا میٹرو ٹرین پر آنا ہو گا یا پھر پیدل آئیں۔ ورنہ بہتر یہی ہے کہ دفتر میں ہی رات گزاریں۔
قریب کے سارے ہوٹل مہینوں پہلے سے بُک ہو گئے تھے۔ اس لیے ایک دن پہلے دفتر سے گھر واپس آ گئے کہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ سوچا کہ صبح سویرے سب سے پہلی ٹرین سے دفتر پہنچ ہی جائیں گے۔
تو جناب اگلے دن منہ اندھیرے جنوری کی سخت ترین سردی میں کانپتے کانپتے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے لیکن وہاں تک گاڑی لے جانا بھی دشوار تھا۔ بیوی گاڑی چلا رہی تھیں۔ انہوں نے ایک جگہ روک کر کہا کہ بہتر ہے آپ یہاں سے پیدل چلے جائیں ورنہ لیٹ ہو جائیں گے۔ یہ مشورہ مناسب تھا۔ لیکن جب ہم اسٹیشن کے گیٹ کے قریب پہنچے تو مسافروں کی ایک طویل قطار کا سامنا تھا۔ شکر ہے وقت سے پہلے آدھی رات کو آ گئے تھے۔ اس لیے پہلی یا دوسری ٹرین تک رینگتے رینگتے پہنچ ہی گئے۔ بیٹھ کر جانے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ اس لیے گھنٹے بھر کا سفر کھڑے کھڑے طے کیا۔ وہ بھی مسافروں سے ٹکراتے اور ان پر گرتے ہوئے۔ لیکن شکر ہے کہ کسی بڑے حادثے کے بغیر ہی ہمارے دفتر کا اسٹیشن آ گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سوچا اب تو دفتر پانچ منٹ میں پہنچ جائیں گے۔ مگر کہاں۔ بقول منیر نیازی
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اب جو ٹرین رکی تو باہر نکلنے کا راستہ ہی نہ تھا۔ مطلب یہ کہ دروازہ تو کھل گیا مگر باہر قدم رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا پلیٹ فارم پر جو چیونٹی کی رفتار سے کھسک رہا تھا۔ دھکّم پیل کر کے کسی طرح ٹرین سے باہر آئے۔ ورنہ خطرہ تھا کہ گاڑی چل پڑے اور ہم کسی اور اسٹیشن پر پہنچ جائیں۔
لیکن جناب پلیٹ فارم دیکھ کر حج کا منظر یاد آ گیا۔ جہاں آپ چلتے نہیں لوگوں کے سمندر میں بہے جاتے ہیں۔ آپ کا کوئی زور نہیں ہوتا اور اگر آپ بدقسمتی سے گر جائیں یا کوئی چیز گر جائے تو اٹھا نہیں سکتے ورنہ کچلے جائیں گے۔ وہاں پھر بھی کھلا آسمان ہوتا ہے اور آپ کا دم نہیں گھُٹتا۔ لیکن یہاں تو یہ اسٹیشن تہہ خانے میں تھا۔
اس ہجوم میں دم گھُٹنا شروع ہو گیا۔ یوں لگتا تھا کہ باہر نکلنے کا دروازہ کئی میل دور ہو گیا ہے۔ روشنی تک نظر نہیں آ رہی تھی۔ لگتا تھا کہ ایک غار ہے جس میں آپ دفن ہو جائیں گے۔ بس جتنے درود اور دعائیں یاد تھیں پڑھ ڈالیں کہ اب زندگی نہیں ملنی۔
Your browser doesn’t support HTML5
بالآخر پتہ نہیں کس طرح باہر دھکیل دیے گئے۔ روشنی نظر آئی تو کھل کر سانس لیا اور یہ یقین کیا کہ ہم زندہ ہیں اور دنیا میں واپس آ گئے ہیں۔ مگر یہ کیا کہ دفتر سامنے تھا لیکن جگہ جگہ رکاوٹیں اور کئی مراحل تھے جن سے گزر کر جانا تھا۔
وقت کافی تھا۔ اس لیے آرام آرام سے چلتے رہے اور دفتر کے دروازے میں داخل ہو گئے۔ کچھ دیر بعد مہوین اور دوسرے ساتھی بھی ہانپتے کانپتے پہنچ گئے۔
شکر خدا کا کہ تقریب دوپہر میں ہونا تھی۔ اس لیے ہوش و حواس بحال کرنے کے لیے کچھ مہلت مل گئی۔ چائے ناشتہ وغیرہ کیا گیا اور تیار ہو گئے بڑے معرکے کے لیے۔
ایک بڑے اسٹوڈیو پہنچے جہاں سامنے تین ٹی وی لگے تھے اور تقریب کے سارے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ ہمیں تقریب کی براہِ راست آواز فراہم کی گئی تاکہ ہم اپنے ریڈیو سامعین کو ہر لمحے کی تصویر اپنے لفظوں میں دکھا سکیں۔ جیسا کہ آپ کو پہلے بتایا کہ مسوّدہ اس حساب سے تیار کیا گیا تھا تو ہم نے مہمانوں کی آمد اور مختلف جگہوں کی منظر کشی کی۔ صدر اوباما اور مشیل اوباما کی آمد، نائب صدر جو بائیڈن اور ان کی بیگم کی آمد اور سارے معزز مہمانوں کی آمد کا آنکھوں دیکھا حال نشر کرنا شروع کیا۔ درمیان میں دعائیں، بینڈ کی دھنیں اور صدر کے حلف اٹھانے کے ساتھ ان کا پُرجوش خطاب بھی پیش کیا گیا۔ یوں چار گھنٹے کی طویل میراتھن ٹرانسمیشن اختتام کو پہنچی۔
اس دوران مال کے سبزہ زار پر کیپیٹل ہل سے آزادی مینار تک لوگوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ وہ جھوم رہے تھے، گا رہے تھے کہ آج ان کے لیڈر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا ایک خواب پورا ہو گیا تھا اور ایک افریقی امریکی ان کا رہنما تھا۔ اور وہ بآوازِ بلند نعرے لگا رہے تھے: اوووووباما۔۔۔ اوووووباما۔۔۔