ڈیوڈ یرینین/ شہناز عزیز
ڈیوڈ نے خوش دلی سے قہقہے لگانے والے جمال خشوگی کے بارے میں لکھا ہے کہ دنیائے عرب میں جمہوریت اور آزادی تقریر کے بارے میں مستحکم نظریات رکھنے والے خشوگی حسِ ظرافت میں بھی کم نہیں تھے۔ اس سال اگست میں دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں انہوں مصر اور لیبیا، دونوں ملکوں میں، جمہوریت کے إمكانات پر بات کی تھی۔ اس سوال کے جواب میں کہ’ گو کہ اس وقت کے حالات میں ایسا سوچنا دشوار ہے لیکن شاید مصر ایک جمہوری ملک بن سکتا ہے۔ لیکن لیبیا کے لئے تو ایسا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خشوگی نے کہا تھا کہ’ میرے خیال میں ایسا ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں ایسا ہو سکتا ہے اگر ایک ایسی امریکی انتظامیہ ہو جسے ایسا کرنے میں دلچسپی ہو۔ اور اس کے پاس ایک واضح پلان ہو۔تاہم اس وقت ایسا کوئی پلان نہیں ہے۔ یہ انتظامیہ ایسا نہیں کرے گی۔
جمال خشوگی پر نکتہ چینی کرنے والے کچھ افراد ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کے اخوان المسلمون سے رابطے تھے جسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر میں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے تجزیہ کار، ڈیوڈ اگنیشئیس نے اس بارے میں خشوگی کا دفاع کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اپنی نوجوانی کے دور میں وہ اس تنظیم کے حامی تھے۔ تاہم 1990 کی دہائی کے وسط میں ان کا یہ یقین پختہ ہو چکا تھا کہ جس بدعنوانی اور آمریت سے انہیں نفرت تھی اس سے نجات پانے کے لئے عربوں کی سب سے بڑی امید جمہوریت اور آزادی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جمال خشوگی نے یورپ کے طرز کی، ایک’ عرب نیٹو ‘کے قیام کے امکانات پر بات کی تھی لیکن اس بارے میں انہیں شديد شہبات تھے۔ ان کا کہنا تھا ’ ہمارے پاس عرب نیٹو کیوں ہونی چاہیئے۔ ایرانیوں سے لڑنے کے لئے؟ ہمارے مسائل خود ہمارے اندر ہیں۔ ہمارے اپنے نظام کے اندر ہمارے زیادہ سنگین مسائل ہیں۔
گزشتہ برس موسم خزاں میں، وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کر تے ہوئے، خشوگی نے ان اصلاحات پر تشويش کا إظهار کیا تھا جو اس وقت ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے کی جارہی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’ وہ ان اصلاحات کے بارے میں پر امید نہیں ہیں۔ ‘تاہم یہ کہ ’ وہ اب بھی مثبت رہنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر یہ اصلاحات ناکام ہو جاتی ہیں تو ہر ایک کو تکلیف ہو گی۔ ‘انہیں شکوہ تھا کہ ’ تبدیلی ایک بہت ہی محدود حلقے میں عمل میں آرہی ہے۔ اور عام لوگ خود کو اس میں شامل نہیں سمجھتے۔‘
یمن کی ہوثی ملیشیا کو اقتدار سے ہٹانے کی سعودی قیادت کی فوجی مہم کے بارے میں بات کرتے ہوئے، خشوگی نے، ایران کے حمایت یافتہ زیدی شیعہ گروپ پر تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ’ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ہوثیوں نے طاقت کے ذریعہ یمن کا اقتدار حاصل کیا ہے، اور وہ بزورِ طاقت ہی وہاں رہیں گے۔ لگتا یہ ہے کہ انہیں طاقت کے ذریعہ ہی وہاں سے نکالا جا سکتا ہے۔ ‘
تاہم خشوگی نے یمن میں کسی نئے جمہوری نظام کے لئے حمایت کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح جیسے وہ دیگر عرب ملکوں کے لئے کر تے تھے۔ بقول ان کے’ میرے خیال میں سعودی بھی جمہوریت کے بارے میں اتنے ہی تذبذب میں ہیں جتنے ایرانی ہیں۔ دونوں ہی ملک یمن پر اپنا منصوبہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔‘
سن 2011 کی ’عرب موسم بہار ‘کے نام سے معروف تحریک ان کا محبوب موضوع تھی۔ اسے سراہتے ہوئے خشوگی نے کہا تھا کہ ’یہ یمن اور دوسرے ملکوں میں مثبت طاقتوں کو سامنے لائی تھی اور یہ اہم ہے کہ انہی نظریات کو واپس لایا جائے۔‘
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5