یہاں موبائل فون تو پہنچ گیا، لیکن سنگنلز نہیں۔ گاوٴں کے باسیوں کو موبائل فون پر بات کرنا ہو تو انہیں گاوٴں سے 300 میٹر کی دوری پر ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر بات کرنا پڑتی ہے، کیونکہ یہی وہ واحد جگہ ہے جہاں سنگلز موصول ہوتے ہیں
کراچی ... ایک لمحے کے لئے سوچئے۔ اگر آپ کے پاس موبائل ہو مگر سگنلز نہ ہوں۔۔۔ یا سگنلز بھی ہوں، لیکن بیٹری چارج نہ ہو۔۔اور چارجنگ کے لئے آپ کو میلوں پیدل چل کر صبح شام کہیں جانا پڑے تو۔۔۔؟
اب صرف ایک لمحے کے لئے یہ بھی سوچئے کہ اگر آپ کو موبائل پر بات کرنے کے لئے ہر بار اپنے گھر سے تین سو میٹر کی دوری پر واقع ایک اونچے ٹیلے پر چڑھنا پڑے تو کیا آپ آسانی سے اس کے عادی ہوجائیں گے۔۔۔؟
یہ تمام صورتحال بابا آدم دور کے کسی گاوٴں یا قصبے کی نہیں بلکہ صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں واقع تعلقہ کھپرو کی ہے۔ اصل میں کراچی، لاہور، اسلام آباد اور لاہور جیسے درجنوں بڑے شہروں میں تو آپ کو جگہ جگہ موبائل ٹاورز شان سے سر اٹھائے نظرآجائیں گے لیکن کھپرو میں ایسا نہیں ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کے باسیوں کو موبائل فون پر بات کرنے کے لئے شاید اتنی ہی محنت کرنا پڑتی ہے جتنی کسی کو جوئے شیر لانے میں کرنا پڑتی۔ یہاں موبائل فون سنگلز ریسیو ہو جانا کسی معرکہ سرکرنے سے کم نہیں۔
سندھ کے صحرا میں بسنے والے بجلی، پانی، سڑکوں جیسی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم سہی۔ لیکن، موبائل فون اور انٹرنیٹ ایسی چیزیں ہیں جس کا بندوبست انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کر لیا ہے۔
یہاں موبائل فون تو پہنچ گیا، لیکن سنگنلز نہیں۔ گاوٴں کے باسیوں کو موبائل فون پر بات کرنا ہو تو انہیں گاوٴں سے 300 میٹر کی دوری پرایک اونچے ٹیلے پرچڑھ کربات کرنا پڑتی ہے کیونکہ یہی وہ واحد جگہ ہے جہاں سنگلز موصول ہوتے ہیں۔
سولر پلیٹ سے موبائل چارج کیجئے:
گاوٴں علی جو دَر کے رہائشی میرحسن راجڑ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا موبائل فون چارج کرنے کے لئے 20 منٹ پیدل چل کر دوسرے گاوٴں جانا پڑتا ہے جہاں کچھ لوگوں نے سولر پلیٹ خرید لی ہیں اور قریب میں جتنے بھی گاوٴں ہیں ان کے رہائشی اپنے فون چارج کروانے وہیں جاتے ہیں۔
انگریزی اخبار ’ایکسپریس ٹریبیون‘ کی ایک خبر کے مطابق مختلف دیہاتوں کی ’اوطاق‘ یعنی گیسٹ ہاوسز کی چھتوں پر چھوٹی چھوٹی سولر پلیٹس لگائی گئی ہیں۔ ایک سولر پلیٹ سے چار یا پانچ فون چارج ہوجاتے ہیں۔
اونچے ٹیلوں پر رہنے والے کچھ لوگوں نے پبلک کال آفس کھول لئے ہیں، مقامی چرواہے عبدالغفار کے مطابق یہ پی سی او کال کرنے کے 5روپے فی منٹ وصول کرتے ہیں۔ لیکن کال آنے یا وصول کرنے کے کوئی چارجز نہیں۔
عبدالغفار نے فخریہ انداز میں بتایا کہ ’یہاں سب کو ایک دوسرے کا نمبر معلوم ہوتا ہے ۔اگر کوئی ایمرجنسی ہوجائے تو ہمارے رشتے دار پی سی او پر ہمیں یا ٹیلے پر رہنے والے کسی بھی شخص کو کال کرکے پیغام دے دیتے ہیں۔ ان کا پیغام ملتے ہی ہم اپنے فون آن کرکے بات کرلیتے ہیں۔ بات کرنے کے بعد فون دوبارہ آف کردیتے ہیں کیونکہ سنگل نہ ہونے کی وجہ سے فون آن رکھنا بیکار ہے۔اس طرح بیٹری کا ’قیمتی چارج‘ بھی ضائع ہو جاتا ہے۔
بھیڑ، بکریاں چرا کر گزر بسر کرنے والے احمد علی راجڑ ایک چھوٹی سی سولر پلیٹ کے مالک ہیں جو انہوں نے سانگھڑ سے7000روپے میں خریدی تھی۔ احمد علی کا کہنا ہے ’پہلے کوئی ایمرجنسی ہوجاتی تھی تو اونٹ یا گدھے پر بیٹھ کرخود جاکر پیغام دینا پڑتا تھا۔ لیکن، اب دنیا ہماری انگلیوں پر ہے۔‘
احمد علی نے یہ بھی کہا کہ ’حکومت نے بجلی پیدا کرنے کے لئے جلد سولر پاور پروجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو صحرا اپنی گرمی کی وجہ سے اس کام کے لئے بہترین ہے۔ جب ہم اپنی مدد آپ کے تحت چھوٹے پیمانے پر سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو حکومت کیوں نہیں۔۔‘
اب صرف ایک لمحے کے لئے یہ بھی سوچئے کہ اگر آپ کو موبائل پر بات کرنے کے لئے ہر بار اپنے گھر سے تین سو میٹر کی دوری پر واقع ایک اونچے ٹیلے پر چڑھنا پڑے تو کیا آپ آسانی سے اس کے عادی ہوجائیں گے۔۔۔؟
یہ تمام صورتحال بابا آدم دور کے کسی گاوٴں یا قصبے کی نہیں بلکہ صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں واقع تعلقہ کھپرو کی ہے۔ اصل میں کراچی، لاہور، اسلام آباد اور لاہور جیسے درجنوں بڑے شہروں میں تو آپ کو جگہ جگہ موبائل ٹاورز شان سے سر اٹھائے نظرآجائیں گے لیکن کھپرو میں ایسا نہیں ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کے باسیوں کو موبائل فون پر بات کرنے کے لئے شاید اتنی ہی محنت کرنا پڑتی ہے جتنی کسی کو جوئے شیر لانے میں کرنا پڑتی۔ یہاں موبائل فون سنگلز ریسیو ہو جانا کسی معرکہ سرکرنے سے کم نہیں۔
سندھ کے صحرا میں بسنے والے بجلی، پانی، سڑکوں جیسی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم سہی۔ لیکن، موبائل فون اور انٹرنیٹ ایسی چیزیں ہیں جس کا بندوبست انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کر لیا ہے۔
یہاں موبائل فون تو پہنچ گیا، لیکن سنگنلز نہیں۔ گاوٴں کے باسیوں کو موبائل فون پر بات کرنا ہو تو انہیں گاوٴں سے 300 میٹر کی دوری پرایک اونچے ٹیلے پرچڑھ کربات کرنا پڑتی ہے کیونکہ یہی وہ واحد جگہ ہے جہاں سنگلز موصول ہوتے ہیں۔
سولر پلیٹ سے موبائل چارج کیجئے:
گاوٴں علی جو دَر کے رہائشی میرحسن راجڑ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا موبائل فون چارج کرنے کے لئے 20 منٹ پیدل چل کر دوسرے گاوٴں جانا پڑتا ہے جہاں کچھ لوگوں نے سولر پلیٹ خرید لی ہیں اور قریب میں جتنے بھی گاوٴں ہیں ان کے رہائشی اپنے فون چارج کروانے وہیں جاتے ہیں۔
انگریزی اخبار ’ایکسپریس ٹریبیون‘ کی ایک خبر کے مطابق مختلف دیہاتوں کی ’اوطاق‘ یعنی گیسٹ ہاوسز کی چھتوں پر چھوٹی چھوٹی سولر پلیٹس لگائی گئی ہیں۔ ایک سولر پلیٹ سے چار یا پانچ فون چارج ہوجاتے ہیں۔
اونچے ٹیلوں پر رہنے والے کچھ لوگوں نے پبلک کال آفس کھول لئے ہیں، مقامی چرواہے عبدالغفار کے مطابق یہ پی سی او کال کرنے کے 5روپے فی منٹ وصول کرتے ہیں۔ لیکن کال آنے یا وصول کرنے کے کوئی چارجز نہیں۔
عبدالغفار نے فخریہ انداز میں بتایا کہ ’یہاں سب کو ایک دوسرے کا نمبر معلوم ہوتا ہے ۔اگر کوئی ایمرجنسی ہوجائے تو ہمارے رشتے دار پی سی او پر ہمیں یا ٹیلے پر رہنے والے کسی بھی شخص کو کال کرکے پیغام دے دیتے ہیں۔ ان کا پیغام ملتے ہی ہم اپنے فون آن کرکے بات کرلیتے ہیں۔ بات کرنے کے بعد فون دوبارہ آف کردیتے ہیں کیونکہ سنگل نہ ہونے کی وجہ سے فون آن رکھنا بیکار ہے۔اس طرح بیٹری کا ’قیمتی چارج‘ بھی ضائع ہو جاتا ہے۔
بھیڑ، بکریاں چرا کر گزر بسر کرنے والے احمد علی راجڑ ایک چھوٹی سی سولر پلیٹ کے مالک ہیں جو انہوں نے سانگھڑ سے7000روپے میں خریدی تھی۔ احمد علی کا کہنا ہے ’پہلے کوئی ایمرجنسی ہوجاتی تھی تو اونٹ یا گدھے پر بیٹھ کرخود جاکر پیغام دینا پڑتا تھا۔ لیکن، اب دنیا ہماری انگلیوں پر ہے۔‘
احمد علی نے یہ بھی کہا کہ ’حکومت نے بجلی پیدا کرنے کے لئے جلد سولر پاور پروجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو صحرا اپنی گرمی کی وجہ سے اس کام کے لئے بہترین ہے۔ جب ہم اپنی مدد آپ کے تحت چھوٹے پیمانے پر سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو حکومت کیوں نہیں۔۔‘