بالغوں کے مقابلےمیں بچوں کو اردگرد کا ماحول اس وقت بالکل نظر نہیں آتا، جب ان کی توجہ کسی ایک جگہ پر مرکوز ہوتی ہے: ماہر نفسیات
لندن —
ایک نئی سائنسی تحقیق کا نتیجہ ایسےبہت سے والدین کی غلط فہمی دور کر سکےگا جنھیں اپنی چہیتے بچوں سےشکایت رہتی ہے کہ وہ اپنے کسی مشغلے کے دوران جان بوجھ کر ان کی آواز کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ لیکن، بچوں کےاس رویہ کے پیچھے چھپی سچائی کی سائنسی توجیہہ کا ماہر نفسیات نے پتا لگا لیا ہے۔ اُن کا کہنا ہےکہ بچوں کو بالغوں کے مقابلےمیں اردگرد کے ماحول اس وقت بالکل نظرنہیں آتا ہے جب ان کی توجہ کسی ایک جگہ پر مرکوز ہوتی ہے.
یونیورسٹی کالج لندن کے تحقیق کاروں نے پتا لگایا ہے کہ 14 برس سے کم عمر بچوں میں بالغان کی نسبت اس بات کا امکان زیادہ ہوتا ہے کہ کسی کام میں منہمک ہوکر وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھنےکےقابل نہیں رہتے یا ان کی نظریں نقطئہ نظر سے ہٹ کر کچھ دیکھ نہیں سکتی ہیں۔
تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ بچوں میں توجہ کے مرکز سےباہر بیداری کی صلاحیت عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے۔لہذا، کم عمربچے دوسری طرف توجہ نہ دینے کا شکار رہتے ہیں۔
'فرنٹیئر آف ہیومن نیوروسائنس' میں شائع ہونے والی یہ تحقیق اس بات کی بھی وضاحت کرسکےگی کہ کیوں بچے کتاب پڑھتےہوئے یا گیم اور کارٹون دیکھتے ہوئے والدین کی بات کو سنی ان سنی کردیتے ہیں۔ جبکہ،حقیقت یہ ہے کہ ایک سادہ سی دلچسپی بچوں کو ارد گرد کے ماحول سے بے گانہ بنا دیتی ہے۔
ماہرنفسیات پروفیسر نیلی لاوی جو اس تحقیق کی سربراہی کررہی تھیں، کہتی ہیں کہ بچوں میں بصارت ((Peripheral vision یا سائیڈ وژن (نقطئہ نظر یا مرکز سے باہر اشیاء یا تحریک دیکھنے کی بصری صلاحیت) بالغوں کےمقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مثال کے طور پر سڑک کراس کرتے ہوئے اگر بچہ اپنی جیکٹ کی زپ بند کر رہا ہے تو وہ آنے والے ٹریفک کو محسوس کرنےکے قابل نہیں ہوتا۔ اسی لیے، والدین کا یہ فرض کر لینا کہ بچے انھیں دانستہ طور پرنظر انداز کرتے ہیں غلط ہوسکتا ہے۔ کیونکہ، ممکن ہے کہ ان کے دماغ تک اس بات کی کبھی رسائی ہی نہیں ہوسکی ہے۔
ماہرین نےمختلف عمرکے لوگوں کی پردیبی نقطئہ نظر کا جائزہ لینےکے لیےلندن سائنس میوزیم کے 200سیاحوں کو ایک لائیو سائنسی پروگرام کے تجربات کا حصہ بنایا جس میں شرکا کو اسکرین پر کراس شکل کی سات لائینیں ایک قطار میں دکھائی گئیں اور سب سے لمبی لائن کے بارے میں سوال پوچھا گیا۔
دوسرے مرحلے کو زیادہ مشکل بنانے کے لیے ان کراس لائینوں کی لمبائی کے فرق کو تقریباً یکساں کیا گیا، جبکہ ساتویں کراس شکل کی لائن پر ایک سیاہ مربع خاکہ نمودار کیا گیا۔ اور شرکاء سےپوچھا گیا کہ کیا انھوں نے کنارے کے ساتویں خاکے پرمربع شکل کی روشنی کو محسوس کیا۔
بالغوں میں سے 90 فیصد نے اس خاکہ کی روشنی کو ہربار محسوس کیا جبکہ، کم عمر بچے نمایاں طور پر اس روشنی کو پہیچانے میں ناکام رہے خاص طور پر7 سے10 برس کے بچوں کے ٹیسٹ کا نتیجہ 10 فیصد رہا۔
ماہر نفسیات لاوی نے کہا کہ تحقیق کا نتیجہ بعض بچوں کے برے برتاؤ کی وضاحت کر سکےگا اور ساتھ ہی روڈ سیفٹی مضمرات اور والدین کے حوالے سے یہ نتیجہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے تحقیق کاروں نے پتا لگایا ہے کہ 14 برس سے کم عمر بچوں میں بالغان کی نسبت اس بات کا امکان زیادہ ہوتا ہے کہ کسی کام میں منہمک ہوکر وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھنےکےقابل نہیں رہتے یا ان کی نظریں نقطئہ نظر سے ہٹ کر کچھ دیکھ نہیں سکتی ہیں۔
تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ بچوں میں توجہ کے مرکز سےباہر بیداری کی صلاحیت عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے۔لہذا، کم عمربچے دوسری طرف توجہ نہ دینے کا شکار رہتے ہیں۔
'فرنٹیئر آف ہیومن نیوروسائنس' میں شائع ہونے والی یہ تحقیق اس بات کی بھی وضاحت کرسکےگی کہ کیوں بچے کتاب پڑھتےہوئے یا گیم اور کارٹون دیکھتے ہوئے والدین کی بات کو سنی ان سنی کردیتے ہیں۔ جبکہ،حقیقت یہ ہے کہ ایک سادہ سی دلچسپی بچوں کو ارد گرد کے ماحول سے بے گانہ بنا دیتی ہے۔
ماہرنفسیات پروفیسر نیلی لاوی جو اس تحقیق کی سربراہی کررہی تھیں، کہتی ہیں کہ بچوں میں بصارت ((Peripheral vision یا سائیڈ وژن (نقطئہ نظر یا مرکز سے باہر اشیاء یا تحریک دیکھنے کی بصری صلاحیت) بالغوں کےمقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مثال کے طور پر سڑک کراس کرتے ہوئے اگر بچہ اپنی جیکٹ کی زپ بند کر رہا ہے تو وہ آنے والے ٹریفک کو محسوس کرنےکے قابل نہیں ہوتا۔ اسی لیے، والدین کا یہ فرض کر لینا کہ بچے انھیں دانستہ طور پرنظر انداز کرتے ہیں غلط ہوسکتا ہے۔ کیونکہ، ممکن ہے کہ ان کے دماغ تک اس بات کی کبھی رسائی ہی نہیں ہوسکی ہے۔
ماہرین نےمختلف عمرکے لوگوں کی پردیبی نقطئہ نظر کا جائزہ لینےکے لیےلندن سائنس میوزیم کے 200سیاحوں کو ایک لائیو سائنسی پروگرام کے تجربات کا حصہ بنایا جس میں شرکا کو اسکرین پر کراس شکل کی سات لائینیں ایک قطار میں دکھائی گئیں اور سب سے لمبی لائن کے بارے میں سوال پوچھا گیا۔
دوسرے مرحلے کو زیادہ مشکل بنانے کے لیے ان کراس لائینوں کی لمبائی کے فرق کو تقریباً یکساں کیا گیا، جبکہ ساتویں کراس شکل کی لائن پر ایک سیاہ مربع خاکہ نمودار کیا گیا۔ اور شرکاء سےپوچھا گیا کہ کیا انھوں نے کنارے کے ساتویں خاکے پرمربع شکل کی روشنی کو محسوس کیا۔
بالغوں میں سے 90 فیصد نے اس خاکہ کی روشنی کو ہربار محسوس کیا جبکہ، کم عمر بچے نمایاں طور پر اس روشنی کو پہیچانے میں ناکام رہے خاص طور پر7 سے10 برس کے بچوں کے ٹیسٹ کا نتیجہ 10 فیصد رہا۔
ماہر نفسیات لاوی نے کہا کہ تحقیق کا نتیجہ بعض بچوں کے برے برتاؤ کی وضاحت کر سکےگا اور ساتھ ہی روڈ سیفٹی مضمرات اور والدین کے حوالے سے یہ نتیجہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔