|
جمعرات کو غزہ شہر میں انسانی امداد حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے کم از کم 112 فلسطینیوں کی ہلاکت کی ان خبروں نے جمعہ کو وسیع پیمانے پر بین الاقوامی مذمت کو جنم دیا جن میں عینی شاہدین اور غزہ کے صحت کے حکام نے کہا تھا کہ وہ ہلاکتیں اسرائیلی فائرنگ کا نتیجہ تھیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ہلاکتیں بیسیوں لوگوں کی دھکم پیل اور افراتفری میں امدادی ٹرکوں کے نیچے کچلے جانے سے ہوئی تھیں۔
وائٹ ہاؤس
وائٹ ہاؤس کی ترجمان اولیویا ڈالٹن نے ایئر فورس ون پر صدر جو بائیڈن کے ساتھ امریکہ ۔ میکسیکو بارڈر کی جانب سفر کرنے کے دوران نامہ نگاروں سے کہا کہ اس واقعے کی بھرپور تحقیقات ہونی چاہیے۔ اور یہ واقعہ غزہ میں انسانی ہمدردی کی مزید امداد پہنچانے کی ضرورت اجاگر کرتا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہےکہ بائیڈن نے مصر اور قطر کے امیر سے الگ الگ ٹیلی فون پر بات کی اور شہری ہلاکتوں اور یرغمالوں کی رہائی اور جنگ بندی پر مذاکرات کے حوالے سے بات کی ۔
SEE ALSO: غزہ میں 104 فلسطینی ہلاکتوں کی اطلاعات کی جانچ کر رہے ہیں: بائیڈنفرانس اور یورپی یونین
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکران نے ایکس پر ایک پوسٹ میں فائرنگ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے، سچائی، انصاف اور بین الاقوامی قانون کے احترام پر زور دیا۔
یورپی یونین کی سربراہ ارسلا وان ڈرلین نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ انہں غزہ سے ملنے والی تصاویر پر سخت پریشانی ہوئی ہے اور یہ کہ وہاں کیا ہوا تھا اس بارے میں تحقیقات کے لیے ہر کوشش کی جانی چاہیے۔
اقوام متحدہ اور عرب لیگ
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس طرح کی صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ پتہ چلانے کے لیے موثر آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا اور قصوروار کون تھے۔
نیویارک میں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس 15 ملکی کونسل میں عرب بلاک کے نمائندے الجزائر کی درخواست پر دن کے آخر میں بند کمرے کے اجلاس کے لیے ہوا۔
SEE ALSO: غزہ: امدادی مرکز پر فائرنگ سے 100 سے زیادہ ہلاکتیں، اموات کی مجموعی تعداد 30 ہزار سے تجاوزفلسطینی ایلچی ریاض منصور نے اس امدادی واقعے کو ’اشتعال انگیز قتل عام‘ قرار دیا۔ ایران، چین اور عرب لیگ نے بھی تشدد کی مذمت کی ہے۔
کونسل اس واقعے کی مذمت کے الجیریا کے تیار کردہ پریس بیان سے اتفاق کرنے میں ناکام رہی کیوں کہ اس میں اسرائیل کو قصور وار قرار دیا تھا اور کچھ سفارت کاروں نے کہا کہ ابھی تک ان کے پاس واقعے کے بارےمیں تمام حقائق موجود نہیں ہیں۔
واقعے کے بارے میں متضاد بیانات
غزہ اسپتال کے حکام نے ابتدا میں غزہ شہر کے مغربی حصے میں النبوسی ٹریفک سرکل پر امداد حاصل کرنے کے منتظر ایک ہجوم پر اسرائیلی حملے کی اطلاع دی تھی۔ بعد میں عینی شاہدین نے بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے اس وقت فائرنگ کی جب لوگوں نے امدادی ٹرکوں سے آٹا اور ڈبہ بند سامان نکالنا شروع کیا۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں غزہ میں بہت کم امداد پہنچی ہے اور وہاں بھوک انتہا پر ہے۔
SEE ALSO: غزہ میں جنگ بندی نہ ہوئی تو 'وسیع پیمانے' پر قحط یقینی ہے: اقوامِ متحدہابتدا میں اسرائیلی حکام نے تسلیم کیا تھا کہ فوجیوں نے فائرنگ کی تھی کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ امدادی ٹرکوں کی جانب دوڑنے والے لوگوں سے خطرہ لاحق تھا۔
لیکن بعد میں جمعرات کو ایک ویڈیو بیان میں اسرائیلی ڈیفینس فورسز کے ترجمان نے ایکس پر کہا کہ فوجیوں نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے صرف انتباہی فائر کیے تھے۔
ترجمان،رئیر ایڈمرل ڈینیل ہگاری نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے امدادی قافلے پر کوئی حملہ نہیں کیا تھا اور یہ کہ 38 امدادی ٹرکوں کے قافلے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کے لیے اسرائیلی ٹینک وہاں موجود تھے۔
ہگاری نے فوج کے ابتدائی بیان کو دہراتے ہوئے کہا کہ غزہ کے ہزاروں شہریوں نے ٹرکوں پر یلغار کی تھی کچھ نے امداد کو لوٹتے ہوئے زبر دست دھکم پیل کی یہاں تک کہ ایک دوسرے کو جان سے مار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس امداد کو پرائییویٹ کانٹریکٹرز کے ذریعے تقسیم ہونا تھا اور یہ کہ اسرائیلی فوجی گزشتہ چار راتوں سے ایسی امدادی کارروائیاں کر چکے تھے اور وہاں کچھ نہیں ہوا تھا۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، تازہ ترین تشدد نے تقریباً پانچ ماہ سے جاری جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 30,000 سے تجاوز کر دی، مزید 70,000 زخمی اور بہت سے لوگ ملبے کے نیچے لاپتہ ہیں۔
غزہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے اسرائیل کے اندر دہشت گردانہ حملے کیے، جس میں 1,200 افراد ہلاک اور 250 دیگر کو اغوا کیا گیا، جن میں سے تقریباً 100 کو نومبر میں جنگ بندی کے ایک مختصر وقفے کے دوران رہا کر دیا گیا۔
اس رپورٹ کاکچھ مواد اے پی ، رائٹرز اور اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔