امریکی اہل کاروں کے حلقے میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے آیا داعش کے شدت پسند گروپ کو شکست دینے اور تباہ کرنے کے لیے ایک سے زیادہ جنگیں درکار ہوں گی۔
کئی ایک اہل کار پُرامید ہیں کہ مقامی دھڑوں کو با اختیار بنانے اور فضائی حملوں کی پشت پناہی اور دیگر اعانتی اقدام پر مشتمل امریکی حکمت عملی کارگر ثابت ہو رہی ہے، جب کہ فوجی حکام نے نشاندہی کی ہے کہ مئی 2015ء میں جب سے عراق اور شام میں کارروائی کا آغاز کیا گیا، داعش کے شدت پسندوں کی جانب سے علاقے پر قبضے میں کمی آئی ہے۔
لیکن، اس دہشت گرد گروہ کے حربوں کے نتیجے میں اُس کی خود ساختہ خلافت سُکڑتی جا رہی ہے اور اُس کی روایتی فوجی زعم میں کمی واقع ہو رہی ہے، دولت اسلامیہ کے شدت پسند گروہ کو تباہ کرنے کے لیے لڑائی میں مزید تیزی لانی پڑے گی۔
ایک امریکی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ، ’ہم نے نفری کی تعداد پر نظر ڈالی ہے، جن کی بیرونی کارروائیوں میں تیزی لانے کے سلسلے میں خدمات درکار ہوں گی‘۔ اہل کار نے کہا ہےکہ دولت اسلامیہ کے حلقوں کے اندر سوچ کی ایک واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔
اہل کار نے بتایا کہ مغرب میں دہشت گرد حملوں کی ترغیب دینے کے بجائے، گروپ حملوں کی منصوبہ سازی کر رہا ہے، جب کہ اُس کا زیادہ انحصار روایتی کمانڈ اور کنٹرول پر ہے۔
یہ تشویش اس حد تک شدید ہے کہ داعش کے بیرونی کارروائیوں کے منصوبہ ساز ہی عراق اور شام میں امریکہ اور اتحاد کے فضائی حملوں کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔
حملے کے منصوبہ ساز نشانے پہ
امریکی سینٹرل کمان کے مطابق، دسمبر میں فضائی کارروائیوں کے دوران ہلاک ہونے والے داعش کے 10 رہنماؤں میں سے پانچ نے عراق اور شام سے باہر دہشت گرد حملوں کی منصوبہ سازی مین اہم کردار ادا کیا تھا۔ اِن میں سے دو، عبدالقادر حکیم اور شراف المودان کے نومبر میں پیرس میں ہونےوالے دہشت گرد حملہ آوروں کے ساتھ روابط تھے، جن حملوں میں 130 افراد ہلاک ہوئے۔