افغانستان میں طالبان اور شدت پسند گروپ داعش کے جنگجوؤں میں مہلک جھڑپوں میں دونوں اطراف درجنوں ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جب کہ طالبان نے صوبہ ننگرہار کے دو دورافتادہ علاقوں سے داعش کو مار بھگایا ہے۔
افغان پولیس کے مطابق یہ جھڑپیں پاکستانی سرحد کے قریب بتی کوٹ اور چپرہار کے اضلاع میں اس وقت شروع ہوئیں جب سیکڑوں طالبان عسکریت پسندوں نے رواں ہفتے کے اوائل میں یہاں داعش کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔
گو کہ طالبان نے ان دو اضلاع پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے لیکن وہ داعش کے مضبوط گڑھ تصور کیے جانے والے ضلع نازیان پر ابھی تک تسلط قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
دریں اثناء صوبائی گورنر کے دفتر نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ پیر کو سکیورٹی فورسز نے ان شورش زدہ علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں داعش کے کم ازکم 15 جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ کو ان جھڑپوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان نے داعش کو دو اضلاع سے نکال باہر کیا ہے۔ انھوں نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔
طالبان افغانستان میں بین الاقوامی افواج اور حکومت کے خلاف جاری اپنی مہم کے لیے داعش کو ایک خطرہ تصور کرتے ہیں۔
2014ء میں عراق اور شام کے وسیع رقبے پر قبضہ کرنے کے بعد داعش نے اپنا دائرہ اثر دیگر علاقوں تک بڑھانے کا اعلان کیا تھا کہ اور حال ہی میں اس نے مشرقی افغان صوبے ننگرہار میں اپنے قدم جمانا شروع کیے۔
افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ یہاں موجود داعش کے جنگجوؤں کی اکثریت پاکستانی شہری ہیں جن کا تعلق قبائلی علاقوں اورکزئی، خیبر اور باجوڑ سے ہے۔
پاکستان نے اپنے ہاں جون 2014ء سے شدت پسندوں کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ ملکی و غیر ملکی مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا بتایا جا چکا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائیوں کی وجہ سے بہت سے شدت پسند فرار ہو کر افغان علاقوں میں جا چھپے ہیں اور اس نقل و حرکت کو روکنے کے لیے سرحد پر نگرانی کے نظام کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔