پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد صوبہ پنجاب توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ تاہم خیبرپختونخو ا میں کوئی سیاسی بحران نہ ہونے کے باوجود اب سب نظریں خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلٰی پر ہیں کہ آیا کہ وہ جمعے کو اسمبلی تحلیل کریں گے یا نہیں؟
خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی محمود خان نے عمران خان کے اعلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کوہ جمعے کو اسمبلی توڑیں گے یا نہیں۔
وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف کہتے ہیں کہ اگر پنجاب اسمبلی جمعے کو تحلیل نہ ہوئی تو پھر کے پی اسمبلی کو جمعے کو تحلیل کرنا بے معنی ہو گا۔
رہنما تحریکِ انصاف فواد چوہدری بھی کہہ چکے ہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد میں کامیابی کے بعد پرویز الہٰی اسمبلی توڑ سکیں گے، لہذٰا پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں بیک وقت توڑی جائیں گی۔
خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں جلسے کے دوران انتخابات کی فوری تاریخ نہ ملنے پر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چیئرمین تحریکِ انصاف نے 17 دسمبر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ دیتے ہوئے کہا تھا کہ 23 دسمبر کو دونوں صوبائی اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی۔
لیکن پنجاب میں گورنر پنجاب اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کے درمیان اجلاس بلانے کے معاملے پر اختلافات اور وزیرِ اعلٰی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد جمعے کو اسمبلی تحلیل ہونے کا امکان کم ہو گیا ہے۔
گورنر پنجاب نے وزیرِ اعلٰی پنجاب سے کہا تھا کہ وہ بدھ کی شام تک اعتماد کا ووٹ لیں، تاہم وزیرِ اعلٰی نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی اب وزیرِ اعلٰی نہیں رہے۔
ماہرین کے مطابق پنجاب کی صورتِ حال کا لامحالہ اثر خیبرپختونخوا پر بھی پڑے گا۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی اور وزرا 26 نومبر سے اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں سیاسی طور سرگرم دکھائی دیتے ہیں ۔
وزیر اعلی محمود خان آئے روز پشاور سمیت صوبے کے بیشتر علاقوں میں ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کے افتتاح کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرر ہے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی نئے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں ۔
تاہم پاکستان تحریکِ انصاف کے کئی اراکینِ صوبائی اسمبلی وقت سے پہلے اسمبلی کی تحلیل پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
بیرسٹر سیف نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کہا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کا مقصد وفاقی حکومت پر نئے انتخابات کے لیے دباؤ بڑھانا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو سکا تو پھر پی ٹی آئی کو سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب اور کے پی اسمبلی تحلیل ہونے سے 66 فی صد عوام نمائندگی سے محروم ہو جائیں گے، لہذٰا وفاقی حکومت کے پاس قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
البتہ پنجاب میں وزیرِ اعلٰی پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ اب پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ لہذٰا اب خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اُن کے بقول اس معاملے پر حتمی فیصلہ عمران خان کا ہی ہو گا۔
SEE ALSO: اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ جنوری تک جا سکتا ہے: اسپیکر پنجاب اسمبلیخیبرپختونخوا میں حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رُکن اسمبلی اختیار ولی کہتے ہیں کہ عمران خان اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے وہ صرف ملک میں سیاسی بحران چاہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلٰی خود بھی اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں نظر نہیں آتے۔
اختیار ولی کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف نے پی ٹی آئی کو فری ہینڈ دیا ہےاسی لیے حزبِ اختلاف نے خیبرپختونخوا میں تحریکِ عدم اعتماد پیش نہیں کی۔ لہذٰا اگر حکومت سنجیدہ ہے تو پھر جمعے کو اسمبلی تحلیل کر دے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر اسمبلی تحلیل ہوئی تو وہ انتخابات کے لیے تیار ہیں، تاہم اگر پی ٹی آئی کے اراکین اپنی نشستوں سے مستعفی ہوتے ہیں تو پھر ان نشستوں پر ضمنی الیکشن ہو جائیں گے۔
اختیار ولی نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کر کے وفاقی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی تو پھر صوبے میں گورنر راج نافذ کرنا آخری آپشن ہو گا۔
پشاور کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان خان کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے مستقبل کا دارومدار اب پنجاب اسمبلی کی صورت حال پر ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی محاذ آرائی کا محور پنجاب ہے، لیکن اس کے منفی اثرات سے خیبرپختونخوا کسی بھی طور الگ نہیں رہ سکتا۔
عرفان خان کہتے ہیں کہ ایک طرف خیبرپختونخوا میں معاشی اور مالی بحران ہے اور دوسری طرف دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال میں وفاق اور صوبے کے درمیان سیاسی رابطے ختم ہونے کے منفی اثرات سے عوام ہی متاثر ہوں گے۔