پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے احتساب کمیشن نے پاکستان تحریکِ انصاف کی منحرف رکنِ قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں چھان بین شروع کردی ہے۔
عائشہ گلالئی کے خلاف ان کے پرنسپل سیکرٹری اور ایک دوسرے شخص نے بدعنوانی کے الزامات لگائے ہیں۔
صوبائی احتساب کمیشن کے عہدیدار کرنل (ر) سردار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ چونکہ عائشہ گلالئی قومی اسمبلی کی رکن ہیں لہذا صوبائی احتساب کمیشن براہِ راست ان کے خلاف تحقیقات یا کوئی کاروائی نہیں کرسکتا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں دو افراد نے عائشہ گلالئی کے خلاف بدعنوانی کے الزامات لگائے جس پر ان دونوں افراد سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کرنل سردار کے بقول کمیشن کا ایک فرد سے رابطہ ہوگیا ہے اور انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود تمام ثبوت اور شواہد کمیشن کے حوالے کردیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر عائشہ گلالئی پر لگنے والے الزامات میں دیگر ملوث افراد کا تعلق صوبائی حکومت سے ہوا یا مبینہ طور پر غبن کیے جانے والے فنڈز کا تعلق صوبے سے ہوا تو پھر صوبائی احتساب کمیشن اس معاملے کی تحقیقات اور کارروائی کرسکتا ہے۔
دریں اثنا صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکن اور اپنے آپ کو عائشہ گلالئی کا پرسنل سیکرٹری کہلانے والے نور زمان نے عائشہ گلالئی کے خلاف بنوں اور کرک میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں میں رشوت لینے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت میں نور زمان نے دعویٰ کیا کہ عائشہ گلالئی نے بنوں اور سراخیل کے درمیان سڑک کی تعمیر میں 72 لاکھ روپے وصول کیے۔
نور زمان نے عائشہ گلالئی پر کئی اور منصوبوں میں بھی رشوت لینے کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام ثبوت احتساب کمیشن کو فراہم کررہے ہیں۔
عائشہ گلالئی پہلے ہی صوبائی احتساب کمیشن اور صوبائی حکومت کی جانب سے شروع کی جانے والی تحقیقات اور تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی جانب سے ان پر عائد کیے جانے والے الزامات کو سیاسی انتقام قرار دے کر مسترد کرچکی ہیں۔
گلالئی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے اور اپنے والدین کو لاحق خطرات کے پیشِ نظر پشاور چھوڑ دیا ہے اور اسلام آباد میں عارضی رہائش اختیار کرلی ہے۔