روس کی حکومت نے کہا ہے کہ صدر ولادی میر پوٹن اور ان کے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان رواں ہفتے ہونے والی ملاقات کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں جس میں دونوں رہنما جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے سمیت کئی بین الاقوامی مسائل پر تبادلۂ خیال کریں گے۔
مجوزہ ملاقات ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرز میں دنیا کی 20 بڑی معاشی طاقتوں کی تنظیم 'جی-20' کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ہفتے کو ہوگی۔
دو روزہ سربراہی اجلاس جمعے کو شروع ہوگا جس میں شرکت کے لیے کئی عالمی رہنما پہلے ہی ارجنٹائن کے دارالحکومت پہنچ چکے ہیں جب کہ دیگر رہنما آج مختلف اوقات میں بیونس آئرز پہنچیں گے۔
صدر ٹرمپ دو روزہ اجلاس کی سائیڈ لائن پر کئی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے جن میں سب سے اہمیت روسی صدر کے ساتھ ملاقات کو دی جا رہی ہے۔
جمعرات کو روسی حکومت کے مرکز کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے ماسکو میں صحافیوں کو بتایا کہ دونوں رہنما پہلے تخلیے میں ملاقات کریں گے جس کے بعد دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام بھی بات چیت میں شریک ہوجائیں گے۔
خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق ترجمان نے کہا کہ دونوں ملکوں کو عالمی استحکام، ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے اور مختلف عالمی تنازعات پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
کریملن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تمام معاملات پر اتفاق بھی ہو اور نہ ہی ایسا ممکن ہے لیکن انہیں آپس میں گفتگو ضرور کرنی چاہیے۔
روسی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ اور روس کے درمیان رابطے صرف دونوں ملکوں کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہیں۔
امریکی اور روسی صدور کی یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی ہے۔
کشیدگی کا آغاز رواں ہفتے اس وقت ہوا تھا جب روس نے بحیرۂ اسود سے بحیرۂ ازوو جانے والی یوکرینی بحریہ کی تین کشتیوں کو تحویل میں لے کر ان پر سوار عملے کے تمام 24 اہلکاروں کو گرفتار کرلیا تھا۔
واقعے کے بعد یوکرین نے اپنے سرحدی علاقوں میں مارشل لا نافذ کردیا ہے اور مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' سے اپیل کی ہے کہ وہ یوکرین کی حفاظت کے لیے اپنے جنگی بحری جہاز بحیرۂ ازوو میں تعینات کرے۔
یوکرینی کشتیوں کو تحویل میں لینے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ وہ ردِ عمل میں روسی صدر کے ساتھ اپنی ملاقات منسوخ کرنے پر غور کرسکتے ہیں۔
تاہم تاحال امریکی حکام نے طے شدہ ملاقات کی منسوخی کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔