دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران طبی عملہ نیند کی کمی کی وجہ سے کئی طرح کے طبی مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ طبی عملے میں نیند کی کمی کی شکایت کرونا وبا سے کہیں پہلے سے موجود ہے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں ایجنگ سٹڈیز کی ماہر سومی لی کے مطابق کئی ایسی مطالعے موجود ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ طبی عملہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے اور اس میں نیند کی کمی سب سے عام شکایت ہے۔
سومی لی بالغ افراد میں نیند کی کمی سے پیدا ہونے والے ذہنی دباؤ اور بیماریوں پر تحقیق کرتی ہیں۔
SEE ALSO: دنیا میں پہلی بار ویکسین لگانے کا سہرا سلطنت عثمانیہ کے سر!ان کے مطابق 2016 میں کئی مطالعاتی جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ امریکہ میں 55 فیصد نرسیں ہفتے میں 40 گھنٹوں سے زائد کام کرتی ہیں اور 30 سے 70 فیصد نے بتایا کہ وہ چھ گھنٹے یا اس سے بھی کم نیند لے پاتی ہیں۔
سومی لی کے بقول، اپنی تحقیق میں انہیں یہ معلوم ہوا کہ طویل مدتی علاج کے مراکز میں کام کرنے والے 57 فی صد طبی کارکن اور کینسر اسپتالوں کی 68 فی صد نرسیں کم خوابی کا شکار ہیں۔
نیند کی کمی کے مسائل کا سامنا طبی ورکرز کو دوسری انڈسٹریز کے ورکرز کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
امریکی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کی 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق 22 طرح کے مختلف شعبوں کے ورکرز میں سے طبی عملے میں دوسرے یا تیسرے نمبر میں نیند کی کمی دیکھی گئی۔
ان میں سے اکثر سات یا اس سے بھی کم گھنٹے نیند لے پاتے ہیں۔ اس سے متعلق 2018 کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طب کے شعبے میں ورکرز کی بے خوابی کے مسائل کی شرح 45 فیصد ہے جو دوسرے شعبوں کے لحاظ سے دوسرے درجے پر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سومی لی کے بقول طبی عملے میں بے خوابی کے مرض کی وجہ سے صرف امریکہ میں 63 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق بے خوابی کے مرض کی وجہ سے مریضوں کے علاج میں غلطیوں کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ بقول ان کے 2020 کی ایک تحقیق کے مطابق معالجین کی جانب سے علاج کے دوران ہونے والی غلطیوں میں سے 97 فیصد کی وجہ نیند میں کمی تھی۔
بقول سومی لی کے محض ایک رات ٹھیک سے نہ سونے کی وجہ سے کارکردگی 25 فیصد تک متاثر ہو سکتی ہے۔
انہوں نے اے پی کو بتایا کہ طبی عملہ بھی اس مسئلے کو سمجھتا ہے اور اس کا حل چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کی ٹیم نے سروے کیا تو 92 فیصد نرسیں اور 66 فیصد ڈائریکٹ کئیر ورکرز نے کہا کہ اگر بے خوابی کے خاتمے کے لیے مدد دی جائے تو وہ ایسی مدد لینے کو تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طبی عملہ مزید نیند کی کمی کا شکار نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اپنے طبی عملے کی نیند کی کمی کے مسئلے کو حل کرنا ہو گا۔