خواتین پولیس اہل کاروں کی عزت بھی محفوظ نہیں

اسلام آباد پولیس کی خواتین اہلکار پولیس ہیڈکواٹرز اسلام آباد میں مارچ کرتے ہوئے۔ (فائل)

اسلام آباد پولیس لائن ہیڈ کوارٹرز میں خاتون پولیس اہل کاروں کو اعلیٰ افسران کی طرف سے جنسی ہراساں کرنے کے الزامات کے بعد آئی جی اسلام آباد نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور ابتدائی تحقیقات کے بعد تین پولیس اہل کاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں سوشل میڈیا پر کسی نام کے بغیر جاری ہونے والے ایک خط کا عنوان’ انصاف برائے حوا کی بیٹی ‘ہے۔ اس خط میں خواتین پولیس اہل کاروں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹرز اور ان کے آپریٹرز کی جانب سے مختلف انکوائریوں کے دوران انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے نامعلوم خواتین کا کہن اتھا کہ ان کے پاس اس حوالے سے مختلف ویڈیوز ثبوت بھی موجود ہیں جو صرف چیف جسٹس آف پاکستان کو فراہم کیے جائیں گے۔

یہ خط آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اسلام آباد، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان کو ارسال کیا گیا ہے۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے سرکاری طور پر اس خط کی تصدیق نہیں کی جارہی، تاہم اس معاملہ پر بعض افسران نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس خط کی تصدیق کی اور بتایا کہ آئی جی اسلام آباد سلطان اعظم تیموری نے اس خط پر اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ ابتدائی پوچھ گچھ میں 3مشتبہ اہل کاروں کے نام سامنے آنے پر انہیں معطل جبکہ انکوائری کا دائرہ کار مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔

خط میں خواتین اہل کاروں کا کہنا تھا کہ ہم لڑکیاں پولیس لائن ہیڈ کوارٹرز میں ڈیوٹی سرا نجام دے رہی ہیں۔ لاکھوں مجبوریوں کے باعث دنیا کی ستائی خواتین نے پولیس کے محکمہ میں ملازمت کی۔ اپنے گھر، بہن بھائی، ماں باپ کو چھوڑا، محکمے میں بھرتی ہونے کے بعد ہماری عزت کا خیال رکھنا سینیر افسران کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہاں کام الٹا ہے۔ ہمیں روزانہ کئی کتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پولیس لائن کا نظام ہی خراب ہے۔ ڈی ایس پی سے لے کر ایس پی تک جب بھی کوئی پیشی ہو تو ریڈر اور آپریٹر ہمیں ایک مخصوص جگہ بتاتے ہیں کہ یہاں آجاؤ، ہم آپ کا کام بغیر پیشی کے کروا دیں گے اور ہمیں مجبورا کرنا پڑتا ہے۔

خاتون اہل کاروں نے سنگین الزام عائد کیا کہ ہیڈ کوارٹرز میں ڈی ایس پی اور اس کے ریڈر اور آپریٹروں نے الگ کمرے تیار کر رکھے ہیں جہاں پر ہمارے اعمال ناموں کی سماعت اپنی عزت دے کر ہوتی ہے۔ یہی حال اوپر ریڈروں اور آپریٹروں کا ہے اس لئے یہ الگ کمرے تلاش کرتے ہیں ۔

مذکورہ خط میں تحرير کیا گیا ہے کہ ہماری کچھ لڑکیاں جن کی عزت سے ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹرز اور کچھ ریڈر کھیلتے رہے ہیں ان کی تصاوير اور ویڈیوز ہمارے پاس موجود ہیں جو کہ صرف چیف جسٹس صاحبان کو ہی واٹس ایپ کی جائیں گی۔

خط میں استدعا کی گئی ہے کہ کالی اور گندی بھیڑوں کو لائن سے نکالیں اور ہمیں انصاف دیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے ورنہ ہمیں مجبورا میڈیا کا سہارا لینا پڑے گا۔

مذکورہ نامعلوم درخواست ملنے پر آئی جی اسلام آباد کی ہدایت پر اعلیٰ سطحی انکوائری شروع کر دی گئی ہے ۔ اے آئی جی آپریشنز عصمت اللہ جونیجو کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات میں تین اہل کاروں کے نام سامنے آئے جنہیں معطل کردیا گیا ہے جبکہ مزید تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان میں پولیس اہل کاروں کی جانب سے جنسی ہراساں کیے جانے اور عام لوگوں کو تنگ کرنے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ ماضی میں لاهور شہر میں عابد باکسر نامی ایک پولیس انسپکٹر نے اسٹیج اداکارہ کے بال مونڈھ دیے تھے جس کی ایف آئی آر بھی درج ہوئی لیکن پولیس انسپکٹر کا کچھ نہ بگاڑا جا سکا۔