|
سال 2018 میں منتخب ہونے والے 52 سینیٹرز اپنی چھ سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئے ہیں جب کہ سینیٹ کی کمیٹیاں بھی ختم ہو گئی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں تیسری بار سینیٹ کی خالی نشستوں پر نئے انتخابات ہونے تک سینیٹ غیر مؤثر رہے گا جب کہ الیکشن کمیشن نے خالی نشستوں پر دو اپریل کو پولنگ کرانے کا اعلان کیا ہے۔
پنجاب اور سندھ سے 12، 12 جب کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے 11، 11، اسلام آباد سے تین اور فاٹا سے سینیٹ کی چار نشستیں خالی ہوئی ہیں۔
قبائلی علاقے فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے باعث فاٹا کی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخاب نہیں ہو گا۔ اس طرح تقریباً 50 برس کے بعد فاٹا کے لیے سینیٹ میں مختص نشستیں ختم ہوجائیں گی۔ سینیٹ کی خالی ہونے والی بقیہ 48 نشستوں پر الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
یاد رہے کے فاٹا کی سینیٹ میں کل آٹھ نشستیں تھیں جن میں سے چار نشستیں مارچ 2021 میں خالی ہوئی تھیں جب کہ چار سینیٹرز آج ریٹائر ہو رہے ہیں۔
سینیٹ میں چھ سالہ مدت مکمل کر کے ریٹائر ہونے والے اراکین میں مسلم لیگ (ن) کے 13، پیپلز پارٹی کے 12، پی ٹی آئی کے آٹھ، بلوچستان عوامی پارٹی چھ، جمعیت علمائے اسلام (ف)، پی کے میپ اور نیشنل پارٹی کے دو، دو جب کہ جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کا ایک ایک سینیٹر شامل ہے۔
سینیٹ میں اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے دو سینیٹرز مشاہد حسین سید اور اسد جونیجو ریٹائر ہو جائیں گے۔
SEE ALSO: پاکستان میں پہلے عام انتخابات ہونے میں 23 سال کیوں لگے؟سندھ سے ریٹائر ہونے والے 12 سینٹرز میں رضا ربانی، فروغ نسیم، مظفر حسین شاہ، امام دین شوقین، مولو بخش چانڈیو، سید محمد علی شاہ جاموٹ، وقار مہدی، خالدہ سکندر میندرو، رخسانہ زبیری، کیشو بائی، قرت العین مری اور انور لعل دین شامل ہیں۔
پنجاب سے ریٹائر ہونے والے 12 سینٹرز میں قائد ایوان اسحاق ڈار اور قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم کے علاوہ ڈاکٹر آصف کرمانی، رانا محمود الحسن، مصدق ملک، شاہین خالد بٹ، ولید اقبال، حافظ عبدالکریم، نزہت صادق، سیمی ایزدی اور کامران مائیکل شامل ہیں جب کہ رانا مقبول کی نشست ان کے انتقال کے باعث خالی ہو گئی تھی۔
خیبر پختونخوا سے ریٹائر ہونے والے 11 سینیٹرز میں فیصل جاوید، مشتاق احمد، اعظم سواتی، طلحہ محمود، پیر صابر شاہ، بہرا مند خان تنگی، فدا محمد، دلاور خان، مہر تاج روغانی اور روبینہ خالد شامل ہیں۔ شوکت ترین کی نشست استعفے کے بعد پہلے ہی خالی ہو چکی تھی۔
بلوچستان سے ریٹائر ہونے والے 11 سینیٹرز میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بطور رکن بلوچستان اسمبلی حلف اٹھا چکے ہیں جس کے بعد ان کی نشست خالی ہو چکی ہے۔ بلوچستان سے طاہر بزنجو، احمد خان، مولوی فیض محمد، کہدا بابر، محمد اکرم، شفیق ترین، نصیب اللہ بازئی، عابدہ عظیم اور ثنا جمالی ریٹائر ہونے والوں میں شامل ہیں۔
فاٹا سے چار سینیٹرز ہدایت اللہ خان، ہلال الرحمان، شمیم آفریدی اور ڈپٹی چیئرمین مرزا محمد آفریدی بھی ریٹائر ہو جائیں گے۔ مرزا آفریدی کو صادق سنجرانی کی نشست خالی ہونے کے بعد قائم مقام چیئرمیں مقرر کیا گیا تھا۔
سن 1973 کے آئین کے تحت سینیٹ کے قیام سے آج تک یہ پہلا موقع ہے کہ سینیٹ کے ہر تین برس بعد ریٹائر ہونے والے اراکین کی نشستوں پر مدت ختم ہونے سے کچھ روز قبل انتخاب نہیں ہوپائے۔ جس کے باعث پارلیمان کا یہ مستقل ایوان کچھ روز کے لیے تیسری بار غیر مؤثر ہو جائے گا۔
نئے اراکین سے حلف کون لے گا؟
اس سے پہلے سابق فوجی آمر جنرل ضیاء اور دوسری بار پرویز مشرف کے دور میں سینیٹ غیر مؤثر ہوا تھا۔ سینیٹ کے غیر مؤثر ہونے کے ساتھ ساتھ پہلی بار نئے اراکین کے حلف سے قبل سینیٹ چیئرمین بھی ریٹائر ہوگئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نو منتخب اراکین سے حلف کون لے گا۔
سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نو منتخب اراکین کے حلف کے لیے سینیٹ چیئرمین کی عدم موجودگی میں آئین کے تحت صدر پاکستان موجودہ اراکین میں سے کسی ایک کو حلف اور سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے لیے پرزائیڈنگ افسر مقرر کرسکتے ہیں۔
سینیٹ سیکریٹریٹ کے متعلقہ عہدیدار کے مطابق پریزائیڈنگ افسر مقرر کرنے کے لیے حکومت کو صدرِ پاکستان کو تحریری درخواست کرنا ہوگی۔
SEE ALSO: کیا پاکستان کا کوئی الیکشن شکوک و شبہات سے بالاتر رہا؟سینیٹ میں ہر صوبے کی خالی ہونے والی نشستوں پر نئے سینیٹرز کا انتخاب متعلقہ صوبائی اسمبلی کے اراکین کریں گے۔ پنجاب اور سندھ اسمبلی کے اراکین 12، 12 جب کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکین 11، 11 سینیٹرز کا انتخاب متعلقہ اسمبلی ہال میں دو اپریل کو کیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے متعلقہ افسران کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے انتخاب کا طریقہ کار دیگر انتخابات سے مشکل اور پیچیدہ ہے جس کے باعث بیشتر جماعتیں سینیٹ کے انتخابات کے طریقۂ کار کو مل کر آسان بنانے کی بھی تجویز دے چکی ہیں۔
سینیٹ کے انتخاب میں ہر رکن صوبائی اسمبلی کو سیٹوں کی گیٹیگری کے حساب سے ترجیحی ووٹ دینا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ہر صوبے میں جنرل کی سات نشستوں پر نئے سینیٹر منتخب ہوں گے۔ ان نشستوں پر امیدواروں میں سے ہر رکن اسمبلی پرارٹی کے طریقہ کار سے ووٹ دے گا۔ اس طرح دو خواتیں اور دو ٹیکنوکریٹ/ علماء کی نشستوں پر بھی پرارٹی ووٹ ہوگا جب کے سندھ اور پنجاب میں اقلیت کی ایک ایک نشست پر بھی ووٹنگ ہوگی۔
پولنگ مکمل ہونے کے بعد پہلی پرارٹی والے اراکین کامیاب ہوں گے اور اس کے بعد باقی پرارٹی کی گنتی ہو گی۔