رسائی کے لنکس

آیاریاست مشی گن، برہم عرب امریکی ووٹرز کی وجہ سے بائیڈن کے ہاتھوں سے نکل سکتی ہے؟


 مشی گن کے پرائمری انتخابات کے دوران ایک ووٹر ان کمیٹڈ ووٹ کے ایک بینر کے ساتھ فوٹو 27 فروری 2024
مشی گن کے پرائمری انتخابات کے دوران ایک ووٹر ان کمیٹڈ ووٹ کے ایک بینر کے ساتھ فوٹو 27 فروری 2024

امریکہ کی تین اہم مسابقتی ریاستوں ، نارتھ کیرولائنا ، منی سوٹا اور مشی گن میں ہزاروں لوگوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری انتخابات میں صدر جو بائیڈن کی بجائے غیر پابند یا لاتعلق ووٹر کے طور پر ووٹ دیا۔ ان کمیٹڈ ووٹ سے مراد ووٹروں کا کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینے کی بجائے اس سے لاتعلقی کے اظہار کے طور پر ووٹ دینا ہے۔

’سپر ٹیوز ڈے‘ کو مشی گن میں جہاں ملک میں سب سے بڑی تعداد میں عرب امریکی ووٹر آباد ہیں، صدر بائیڈن کی اسرائیل کیلیے پالیسی سے اختلاف کرنے والوں نے ڈیموکریٹک پرائمری میں اتنے ’’ان کمٹڈ‘‘ یا لاتعلقی کے ووٹ حاصل کر لیے تھےکہ انہیں ریاست کی جانب سے دو ڈیلیگیٹس یا نمائندے مل گئے۔

ان کمیٹڈ ووٹ سے مراد ووٹروں کا کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینے کی بجائے ان سے لاتعلقی کے اظہار کے طور پر ووٹ دینا ہے۔ ریاست مشی گن میں ووٹروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان کمیٹڈ ووٹ دے سکیں۔

ان کمیٹڈ ووٹوں کی مہم اور صدر بائیڈن کا رد عمل

یہ مشی گن کی عرب کمیونٹی کی جانب سےغزہ میں جاری اسرائیل حماس جنگ میں، تل ابیب کے لیے صدر بائیڈن کی حمایت کے خلاف ایک احتجاجی مہم کا حصہ ہے ۔

اس جنگ میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 31 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ غزہ میں اسرائیل نے جو ہتھیار استعمال کیے ہیں ان کی زیادہ تر فنڈنگ امریکہ نے کی ہے اور وہ امریکہ ہی کے بنائے ہوئے ہتھیار ہیں۔

مشی گن کی پرائمری کے بعد بائیڈن کی انتخابی مہم کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ صدر لاتعلقی یا ان کمیٹڈ مہموں میں حصہ لینے والے ووٹرز کو سن رہے ہیں ۔ اور یہ کہ وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک منصفانہ اور پائیدار امن کے ان کے مقاصد کی تائید کرتے ہیں ۔

حالیہ ہفتوں میں بائیڈن انتظامیہ نے ایک عارضی جنگ بندی اور غزہ میں مزید امداد کےلیے دباؤ ڈالا ہے ۔ بائیڈن کی ٹیم نے مقامی عرب امریکیوں کےرہنماؤں سےبھی ملاقات کی ہے۔

صدر بائیڈن نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کے اقدامات سے اسرائیل کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک، ایم ایس این بی سی کے پروگرام 'دی سیٹر دے شو' میں بات کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ نیتن یاہوکو اپنے اقدامات کے نتیجے میں بے گناہ جانوں کے ضیاع پر زیادہ توجہ دینی چاہئیے۔

’ابینڈن بائیڈن‘ مہم

مشی گن میں بائیڈن کو نومبر کے انتخابات میں شکست دلانے کے لیے کام کرنے والے ،ابینڈن بائیڈن ، یعنی ’بائیڈن سے دستبرداری‘ ، نامی ایک گروپ کی شریک چئیر پرسن سمارا لقمان کاکہناتھاکہ میں ان ( بائیڈن) کے لیے جو برہمی میں محسوس کرتی ہوں اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کا مقابلہ تو اس غصے سے بھی نہیں کیا جاسکتا جو میں ٹرمپ کے لیے محسوس کرتی تھی۔

سمارا نے مزید کہا، یہ مفروضہ کہ ڈیمو کریٹک پارٹی انسانی حقوق اور اقلیتی گروپس کے لیے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا ساتھ دیتی ہے، وہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے ۔

سات فروری کو مشی گن میں،جہاں ملک بھر کی عرب کمیونٹی کی سب سے بڑی تعداد بستی ہے ، ریاستی پرائمری انتخابات میں ریاست کے ایک لاکھ سے زیادہ شہریوں میں سے 13 فیصد نے ان کمیٹڈ ، یعنی لاتعلقی کے ووٹ دیے تھے۔

ان کمیٹڈ یا لاتعلقی کے ووٹوں سے وہ بائیڈن کو یہ سگنل دے رہے ہیں کہ انہیں انتخابی مقابلے کی ایک اہم ریاست میں عرب امریکی ووٹرو ں سے محروم ہو جانے کا خطرہ لاحق ہے ۔بائیڈن کے پاس مشی گن کے بغیر بھی کامیابی کا ایک راستہ موجو دہے لیکن وہ کہیں زیادہ سخت راستہ ہے۔

مشی گن اندازاً دولاکھ سے تین لاکھ تک عرب امریکی بستے ہیں، اگرچہ وہ سب ووٹ دینے کے اہل نہیں ہیں۔ یہاں بیشتر عرب کمیونٹی ڈیمو کریٹس کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 میں مشی گن میں 11 ہزار ووٹوں سےبھی کم سے کامیابی حاصل کی تھی۔ 2020 میں بائیڈن لگ بھگ ایک لاکھ بیس ہزار ووٹوں سے جیتے تھے۔

ڈیٹرائٹ کی وائن اسٹیٹ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر جیفری گریناوسکی کہتے ہیں کہ ہم مشی گن میں عرب امریکیوں پر اس لے توجہ مرکوز کیے ہیں کیوںکہ ان کے پاس تقریباً اتنے ووٹ ہیں جو انتخابی نتائج کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

گریناوسکی کا کہنا ہے کہ مشی گن کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے اس لیے صرف عرب امریکیوں کے ووٹوں کا انتخابات کے مجموعی نتائج پر بہت کم اثر پڑ سکتا ہے لیکن صدر کے لیے دوسرے پریشان کن اشارے بھی موجود ہیں۔

گریناوسکی کہتے ہیں، اگر میں بائیڈن کا مشیر ہوتا تو یہ صرف عرب امریکیوں کی آبادی ہی نہ ہوتی جو مجھے فکر مند کرتی ۔ مجھے وہاں کے نوجوان لوگوں کے بارے میں بھی فکر لاحق ہوتی کیوں کہ نوجوان لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو کچھ دیکھ رہی ہے اس پر برہم ہے ۔ آپ دیکھیں کہ یونیورسٹی آف مشی گن کے قریب این آربر میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنے والے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور وہ بہت نان کمیٹڈ تھ ۔

امریکہ کو لاحق سیکیورٹی خطرات؛ چیلنجز کیا ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:54 0:00

مشی گن کے عرب امریکی ووٹر کیا کہتے ہیں؟

کالج کے ایک طالبعلم ، یوسف احمد جنہوں نے پرائمری میں لاتعلقی کا ووٹ ڈالا تھا کہتے ہیں کہ اب ایسا کوئی چانس نہیں ہے کہ وہ نومبر میں بائیڈن کے لیے ووٹ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ( بائیڈن) مکمل تبدیل ہونے کا فیصلہ بھی کر لیں تو بھی انہوں نے پہلے ہی بہت زیادہ نقصان پہنچا دیا ہے۔

احمد ابو صالح کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2020 میں بائیڈن کو منتخب ہونے مدد کے لیے کام کیا تھا لیکن 2024 کے انتخابات میں صدر پھر سے ان کی حمایت حاصل کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ۔

ابو صالح کہتے ہیں ، ہمارا خیال تھا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو انسان دوستی اور رحمدلی کے ساتھ اس ملک کی قیادت کریں گے ۔ لیکن اس کے بجائے وہ منافقت سے کام لیتے رہے ہیں ۔

بقول ابو صالح کے"ہم کہہ رہے ہیں کہ بس بہت ہو چکا۔ ہم اب یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے ٹیکس ڈالرز بم خریدنے اور فلسطینیوں پر بمباری کے لئے اسرائیل کو مزید فوجی امداد دینے پر خرچ ہوں۔ اس کے بجائے ہم چاہیں گے کہ وہ رقم ہمارے اسکولوں پر خرچ ہو۔"

کیا سیاسی نقصان کا دائرہ آگے تک پھیل سکتا ہے؟

سیاسی نقصان صدارتی مقابلے سے آگے تک بڑھ سکتا ہے۔آذاد خیال عرب امریکیوں کا جھکاؤ مشی گن سینیٹ کے فلسطینی نژاد ریپبلکن امیدوار جسٹن امیش کی طرف ہو سکتا ہےجن کا مقابلہ نومبر میں ایک اسرائیل نواز ڈیمو کریٹ الیسا س سٹاکن سے ہورہا ہے ۔

سمارا لقمان کہتی ہیں، میںخود اگرچہ پروگریسو ہوں ،لیکن میں آپ کو بتا سکتی ہوں کہ میں سٹاکن کی بجائے جسٹن امیش کو ووٹ دوں گی۔اور ہم مشی گن سے ایک ری پبلکن سینیٹر کو کامیاب ہوتا دیکھیں گے ۔تو ڈیمو کریٹک پارٹی کے پاس کھونے کو صرف صدارت ہی نہیں بلکہ بہت کچھ اور بھی ہے ۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ان کا خیال ہے کہ ری پبلکن نامزد امیدوار ٹرمپ عرب امریکیوں اور اسرائیل اور فلسطینیوں کی جانب امریکی پالیسیوں کے لیے بہتر ہوں گے تو سمارا نے کہا میں ٹرمپ کے چار سال کے دور سے گزری ہوں ، لیکن 30 ہزار بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں جا چکی ہیں ، اور وہ (عرب امریکی) جو بائیڈن کی صدارت کے ایک اور دور کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اسی دوران ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ ان کمٹڈ ووٹوں کی مہم جو مشی گن کے عرب امریکیوں نے شروع کی تھی اب دیگرمقامات پر بھی پھیل رہی ہے ۔ پانچ مارچ کو ڈیمو کریٹک پارٹی کے سپر ٹیوزڈے پرائمری مقابلوں میں منی سوٹا کے 19 فیصد اور نارتھ کیرولائنا کے 13 فیصد نے ان کمیٹڈ یا لاتعلقی کے ووٹ دیے تھے ۔

ان کمیٹڈ ووٹو ں کی تحریک اب اپنی توجہ واشنگٹن اسٹیٹ کی طرف مبذول کر رہی ہے جہاں بارہ مارچ کو ڈیمو کریٹک پرائمری انتخابات ہو رہے ہیں۔

وی او اے نیوز

فورم

XS
SM
MD
LG